Tuesday 25 October 2011

وہ موجِ‌تبسم شگفتہ شگفتہ،وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی




وہ موجِ‌تبسم شگفتہ شگفتہ،وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی
وہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے،وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی

کفِ دست نازک حنائی‌حنائی،وہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی
وہ باتوں میں جادو ،اداؤں میں‌ٹونا،وہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی

کبھی خوش مزاجی کبھی بے نیازی،ابھی ہوشیاری ابھی نیم خوابی
قدم بہکے بہکے ،نظر کھوئی کھوئی،وہ مخمور لہجہ شرابی شرابی

نہ حرفِ تکلم، نہ سعئ تخاطُب،سرِ بزم لیکن بہم ہم کلامی
اِدھر چند آنسو سوالی سوالی،اُدھر کچھ تبسم جوابی جوابی

وہ سیلابِ‌خوشبو گلستاں گلستاں،وہ سروِ خراماں بہاراں‌بہاراں
فروزاں فروزاں جبیں کہکشانی،درخشاں‌درخشاں نظر ماہتابی

نہ ہونٹوں پہ سُرخی نہ آنکھوں میں‌کاجل،نہ ہاتھوں میں کنگن نہ پیروں میں پائل
مگر حسنِ‌سادہ مثالی مثالی،جوابِ‌شمائل فقط لاجوابی

وہ شہرِ نگاراں کی گلیوں کے پھیرے،سرِ‌کوئےخوباں فقیروں کے ڈیرے
مگر حرفِ‌پُرسش نہ اذنِ‌گزارش،کبھی نامرادی کبھی باریابی

یہ سب کچھ کبھی تھا مگر اب نہیں‌ہے، کہ آوارہ فرہاد گوشہ نشیں ہے
نہ تیشہ بدوشی، نہ خارہ شگافی،نہ آہیں نہ آنسو، نہ‌خانہ خرابی

کہ نظروں میں اب کوئی شیریں‌نہیں‌ہے،جدھر دیکھئے ایک مریم کھڑی ہے
نجابت سراپا،شرافت مجسم،بہ صمت مزاجی،بہ عفت مآبی

جو گیسو سنہرے تھے اب نقرئی ہیں،جن آنکھوں‌میں‌جادو تھا اب باوضو ہیں‌
یہ پاکیزہ چہرہ یہ معصوم آنکھیں،نہ وہ بے حجابی نہ، وہ بے نقابی

وہ عشقِ‌مجازی حقیقت میں‌ڈھل کر ،تقدس کی راہوں پہ اب گامزن ہے
جو حسنِ‌نگاراں فریبِ نظر تھا،فرشتوں‌کی صورت ہے گردُوں جنابی

وہ صورت پرستی سے اُکتا گیا ہے،خلوصِ نظر اور کچھ ڈھونڈتا ہے
نہ موجِ‌تبسم نہ دستِ‌حنائی،نہ مخمور آنکھیں‌گلابی گلابی

نہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی،نہ مخمور لہجہ شرابی شرابی
نہ سُنبُل سے گیسو سنہرے سنہرے،نہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets