Sunday 25 December 2011

مِل گیا تھا تو اُسے خود سے خفا رکھنا تھا






مِل گیا تھا تو اُسے خود سے خفا رکھنا تھا
دل کو کچھ دیر تو مصروفِ دعا رکھنا تھا


میں نہ کہتا تھا کہ سانپوں سے اَٹے ہیں رستے
گھر سے نکلے تھے تو ہاتھوں میں عصا رکھنا تھا


بات جب ترکِ تعّلُق پہ ہی ٹھہری تھی تو پھر
دل میں احساسِ غمِ یار بھی کیا رکھنا تھا


دامنِ موجِ ہَوا یوں تو نہ خالی جاتا
گھر کی دہلیز پہ کوئی تو دیا رکھنا تھا


کوئی جگنو تہہِ داماں بھی چھُپا سکتے تھے
کوئی آنسو پسِ مژگاں ہی بچا رکھنا تھا


کیا خبر اُس کے تعاقب میں ہوں کتنی سوچیں؟
اپنا انداز تو اوروں سے جدُا رکھنا تھا


چاندنی بند کواڑوں میں کہاں اُترے گی؟
اِک دریچہ تو بھرے گھر میں کھلا رکھنا تھا


اُس کی خوشبو سے سجانا تھا جو دل کو محسن
اُس کی سانسوں کا لقب موجِ صبا رکھنا تھا

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets