مگن کس دھن میں اپنے آپ کو دن رات رکھتا ہے

نجانے آج کل وہ کیسے معمولات رکھتا ہے

اثاثہ اس کے کمرے کا ہیں کچھ مغموم آوازیں
درازوں میں مقفل ہجر کے نغمات رکھتا ہے

ہماری گفتگو کس روز کس منزل پہ پہنچی تھی
بلا کا حافظہ ہے یاد وہ ہر بات رکھتا ہے

اگر نالاں ہوں میں اس سے تو وہ بھی خوش نہیں مجھ سے
مرے جیسے ہی وہ میرے لیے جذبات رکھتا ہے

بہت گہرا ہے ‘اس کی ظاہری حالت پہ مت جانا
وہ سینے میں پہاڑوں سے بڑے صدمات رکھتا ہے

اسے کیا چاند سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ساجد
وہ اپنی کھڑکیوں کو بند کیوں دن رات رکھتا ہے