Monday 30 January 2012

ترا گیلا ہاتھ جو ہٹ گیا مرے بھیگے بھیگے وجود سے







تو بنا کے پھر سے بگاڑ دے ، مجھے چاک سے نہ اُتارنا
رہوں کو زہ گر ترے سامنے، مجھے چاک سے نہ اُتارنا


تری ”چوبِ چاک “ کی گردشیں مرے آب وگِل میں اُتر گئیں
مرے پاﺅں ڈوری سے کاٹ کے مجھے چاک سے نہ اُتارنا


تری اُنگلیاں مرے جسم میں یونہی لمس بن کے گڑی رہیں
کفِ کوزہ گر مری مان لے مجھے چاک سے نہ اُتارنا


مجھے رکتا دیکھ کے کرب میں کہیں وہ بھی رقص نہ چھوڑ دے
کسی گردباد کے سامنے، مجھے چاک سے نہ اُتارنا


ترا زعم فن بھی عزیز ہے، بڑے شوق سے تُو سنوار لے
مرے پیچ و خم ، مرے زاوے ، مجھے چاک سے نہ اُتارنا


ترے ’ ’ سنگِ چاک“ پہ نرم ہے مری خاک ِ نم، اِسے چھوتا رہ
کسی ایک شکل میں ڈھال کے مجھے چاک سے نہ اُتارنا


مجھے گوندھنے میں جو گُم ہوئے ترے ہاتھ، اِن کا بدل کہاں
کبھی دستِ غیر کے واسطے مجھے چاک سے نہ اتارنا


ترا گیلا ہاتھ جو ہٹ گیا مرے بھیگے بھیگے وجود سے
مجھے ڈھانپ لینا ہے آگ نے، مجھے چاک سے نہ اتارنا


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets