Monday 27 February 2012

چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے


چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو تیرے غم کے بہانے نکلے

فصل گل آئی پھر اک بار اسیران ِ وفا
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے

ہجر کی چوٹ عجب سنگ شکن ہوتی ہے
دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے

عُمر گزری ہے شبِ تار میں آنکھیں ملتے
کس اُفق سے مرا خورشید نہ جانے نکلے

کوئے قاتل میں چلے جیسے شہیدوں کا جلوس
خواب یوں بھیگتی آنکھوں کو سجانے نکلے

دل نے اک اینٹ سے تعمیر کیا تاج محل
توُنے اک بات کہی لاکھ فسانے نکلے

دشت تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں
ہائے کیا لوگ میرا ساتھ نبھانے نکلے

میں نے امجد اسے بے واسطہ دیکھا ہی نہیں
وہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets