Tuesday 27 March 2012

محبت کی ادھوری نظم




محبت کی ادھوری نظم


رات کا سمندر ہے
رات بھی محبت کی




بات کا اجالا ہے
بات بھی محبت کی




گھات کی ضرورت ہے
گھات بھی محبت کی




نرم گرم خاموشی
سہج سہج سرگوشی




چور چور دروازے
کون چھپ کے آیا ہے




آرزو نے جنگل میں
راستہ بنایا ہے




جھینپتے ہوئے آنگن
نے درخت سے مل کر




کچھ نہ کچھ چھپایا ہے
آسماں کی کھڑکی میں




سکھ بھری شرارت سے
چاند مسکرایا ہے




چاند مسکرایا ہے
چاندنی نہائی ہے




خوشبوؤں نے موسم میں
آگ سی لگائی ہے




عشق نے محبت کی
آنکھ چومنا چاہی




اور ہوا کے حلقے میں
شوخ سی نزاکت سے




شاخ کسمسائی ہے
رات کا سمندر ہے




رات بھی محبت کی
بات کا اجالا ہے




رات بھی محبت کی
بات کے سویرے میں




زندگی کے گھیرے میں
روح ٹمٹمائی ہے




وصل جھلملایا ہے
دل نے بند سینے میں




حشر سا اٹھایا ہے
کون چھپ کے آیا ہے




No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets