Tuesday 27 March 2012

بکھرتی ڈوبتی نبضوں پہ دھیان کیا دینا




یہ راکھ راکھ رتیں اپنی رات کی قسمت
تم اپنی نیند بچھاو تم اپنے خواب چنو
بکھرتی ڈوبتی نبضوں پہ دھیان کیا دینا
تم اپنے دل میں دھڑکتے ہوئے حرف سنو


تمارے شہر کی گلیوں میں سیل ِ رنگ بخیر
تمہارے نقش ِ قدم پھول پھول کھلتے رہیں
وہ راہگزر، جہاں تم لمحہ بھر ٹھہر کے چلو
وہاں پہ ابر جھکیں، آسماں ملتے رہیں

نہیں ضرور کہ ہر اجنبی کی بات سنو
ہر اک صدا پہ دھڑکنا بھی دل کا فر ض نہیں
سکوت ِ حلقہ زنجیر در کیوں ٹوٹے
صبا کا ساتھ نبھانا جنوں پہ قرض نہیں

ہم ایسے لوگ بہت ہیں جو سوچتے ہی نہیں
کہ عمر کیسے کٹی، کس کے ساتھ بیت گئی
ہماری تشنہ لبی کا مزاج کیا جانے
کہ فصل بخشش موج فرات بیت گئی
یہ اک پل تھا جسے تم نے نوچ ڈالا
وہ اک صدی تھی جو بے التفات بیت گئی
ہماری آنکھ لہو ہے تمہیں خبر ہو گی
چراغ خود سے بجھا ہے کہ رات بیت گئی
 


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets