Thursday 20 September 2012

اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں



اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں

تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں

تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا
ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں

ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں
پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں

ہم اگر منزلیں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستہ ہو جائیں

دیر سے سوچ میں ہیں پروانے
راکھ ہو جائیں، یا ہوا ہو جائیں

عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا
خاک ہو جائیں، کیمیا ہو جائیں

اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں

بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فراز
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets