Friday 14 September 2012

بھیگتی ہوئی شب کے بھیگتے اندھیرے میں خواب کتنا گہرا تھا


بھیگتی ہوئی شب کے بھیگتے اندھیرے میں خواب کتنا گہرا تھا
کب خبر ہوئی مجھ کو رات میری آنکھوں کے پاس کون ٹھہرا تھا

عمر کاٹ دی ساری کیف ِ خود نمائی میں، لذت ِ جدائی میں
آئنہ جو دیکھا تو آئنے کی آنکھوں میں ایک اور چہرہ تھا

راستے میں پڑتا تھا باغ اک عجب جس پر تیرگی برستی تھی
سب درخت کالے تھے شاخ شاخ پر لیکن پھول اک سنہرا تھا

دل سے کہہ دیا ہم نے اب نصیب ہے اپنا عمر بھر کی تنہائی
لیکن ایک سایا سا مضطرب تمنا کا دل کے پاس ٹھہرا تھا

شہر ِ دست بستہ میں کس طرف سے آتا پھر احتجاج کا پتھر
دل فریب وعدوں کے قفل تھے در ِدل پر، جسم و جاں پہ پہرا تھا


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets