Thursday 20 September 2012



لہو لہو سے گلابوں کی داستاں دیکھو
ہوئے ہیں قتل بہاروں میں گلستاں دیکھو

سوئے فلک تو سدا دیکھتے ہی رہتے ہو
کبھی تو پلکوں پہ بکھری یہ کہکشاں دیکھو

کسی نے دل لگی، دل کی لگی کسی نے کہا
کسی کے جذبوں کا ہو بھی گیا زیاں دیکھو

شجر شجر کو کہانی تمھاری بتلا دی
صبا کو سمجھا تھا تم نے ہی راز داں دیکھو

ہماری آنکھوں کی برسات دیکھتے کیا ہو
اتر گئی ہیں لہو میں جو بجلیاں دیکھو

نشاں انہی کے ہیں باقی کتاب ہستی میں
زمانہ کرتا رہا جن کو بے نشان دیکھو

فصیل جسم ہے چھلنی تو سر سلامت ہے
عجیب روح میں چلتی ہیں آندھیاں دیکھو

بتول جس کے لئے زندگی لٹا دی ہے
وہ شخص آج بھی ہم سے ہے بدگماں دیکھو

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets