Saturday 8 September 2012

تھام رکھی ھے تیری ایک نشانی دل نے


جانے یہ کیسی تیرے ہجر میں ٹھانی دل نے 
پھر کسی اور کی کچھ بات نہ مانی دل نے 

ایک وحشت سے کسی دوسری وحشت کی طرف 
اب کے پھر کی ھے کوئی نقل مکانی دل نے 

اب بھی نوحے ھیں جدائی کے وہی ماتم ھے 
ترک کب کی ھے کوئی رسم پرانی دل نے 

بات بے بات جو بھر آتی ھیں آنکھیں اپنی 
یاد رکھی ھے کسی دکھ کی کہانی دل نے 

ڈوبتی شام کے ویران سمے کی صورت 
تھام رکھی ھے تیری ایک نشانی دل نے


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets