Thursday 6 September 2012

یہ محبت بھی ہے گھاؤ برسات کا



یہ محبت بھی ہے گھاؤ برسات کا

اجنبیّت کی پھیلی ہوئی دُھند میں
آنکھ بے نُور ہے
کوئی چارہ نہیں کوئی درماں نہیں
ہِجر کی حِدّتوں سے سُلگتے ہوئے
دن بدلتے نہیں
منتظر جاگتی آنکھ کے طاق میں
خواب جلتے نہیں
ساحلِ ذہن پر سوچ کے بادباں
تھم کے چلتے نہیں
کب سے ہے روز و شب کی درِیدہ قبا
چاک سِلتے نہیں
غم سے جُھلستی ہوئی شاخِ ایّام پر
پھول کِھلتے نہیں
بے یقینی کی راہوں پہ بِچھڑے ہوئے
لوگ مِلتے نہیں
جِن کی نس نس میں ہے لذّتِ درد و غم
وہ بِکھرتے نہیں
زخم لگتے ہیں بارش کے موسم میں جو
جلد بھرتے نہیں
یہ محبت بھی زخم ایسے موسم کا ہے
یہ محبت بھی ہے گھاؤ برسات کا
بھر بھی جائے اگر جسم کی لوح سے
داغ مِٹتے نہیں
ایسے دل جو محبت سے سرشار ہوں
غم سے ڈرتے نہیں روز مرتے نہیں

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets