Saturday 15 September 2012

میرا اُس کو بھول جانے کا ہُنر کیسا لگا



میرے آنگن میں قیامِ مختصر کیسا لگا
میں تمہیں کیسی لگی ہوُں میرا گھر کیسا لگا

اُس سے مل کر رُک گئی ہے زندگی اِک موڑ پر
طے ہو منزل تو کہوں وہ ہم سفر کیسا لگا

صرف اتنا ہی وہ بولا تم نہیں تو میں نہیں
کیا کہوں اُس کا یہ قولِ مختصر کیسا لگا

ذہن میں آیا تو ہو گا میری ہجرت کا خیال
تم کو دروازے پہ تالا دیکھ کر کیسا لگا

یہ میری تنہائی کے ساتھی تمہیں کیسے لگے
یہ کتابیں اور پرندہ شیلف پر کیسا لگا

جھیل کے پانی میں وہ جیسا بھی لگتا ہو تمہیں
یہ بتاؤ چاند اُس کے ہاتھ پر کیسا لگا

اب کسی کے نام پر آنکھیں چھلکتی ہی نہیں
میرا اُس کو بھول جانے کا ہُنر کیسا لگا

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets