Monday 17 September 2012

یاد آئ جو تیرے قرب پہ واری ہوئی شام


 
دے اٹھی لو جو تیرے ساتھ گزاری ہوئی شام

حجرہ جاں کی ہر ایک چیز پہ طاری ہوئی شام

عمر بھر دھوپ لپیٹے رہے اپنے تن سے

ہم سے پہنی نہ گئی اس کی اتاری ہوئی شام

پہلے تو مجھ سے میری ذات کا مطلب پوچھا

اور پھر اپنے ہی احساس سے عاری ہوئی شام

اے جنوں پوچھ اسی لمحۂ موجود سے پوچھ

لمس یہ کس کا اٹھایا ہے کہ بھاری ہوئی شام

دو ہی کردار نمایاں ہیں کہانی میں میری

بے کران دشت ہوا میں تو شکاری ہوئی شام

اس طرف دشت بدن میں کوئی سورج ڈوبا

اس طرف سینۂ افلاک سے جاری ہوئی شام

میں نسیں کاٹ کے سورج میں اتر ہی جاتا

پر خیال آیا تیرا ہجر کی ماری ہوئی شام 

کیا فقط ہم سے سوالات کے جائیں گے ؟

کیا فقط ہم سے مخاطب ہے یہ ہاری ہوئی شام

ہم نے ہر شئے میں اترتے ھوۓ دیکھا خود کو

یاد آئ جو تیرے قرب پہ واری ہوئی شام

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets