Thursday 6 September 2012

دل کے ہر ذرّے پہ ہے نقش، محبت اُس کی



شجر سُوکھ گیا ہے وہ ہرّا کیسے ہو
میں پیمبر تو نہیں، میرا کہا کیسے ہو

دل کے ہر ذرّے پہ ہے نقش، محبت اُس کی
نُور آنکھوں کا ہے، آنکھوں سے جُدا کیسے ہو

جس کو جانا ہی نہیں، اُس کو خُدا کیوں مانیں
اور جسے جان چُکے ہیں، وہ خُدا کیسے ہو

عُمر ساری تو اندھیرے میں نہیں کٹ سکتی
ہاں مگر، دل نہ جلائیں تو ضیاء کیسے ہو

جس سے دو روز بھی کُھل کر نہ ملاقات ہوئی
مدّتوں بعد ملے بھی تو گِلہ کیسے ہو

کِن نِگاہوں سے اُسے دیکھ رہا ہوں شہزاد
مجھ کو معلوم نہیں، اُس کو پتا کیسے ہو

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets