Friday 14 September 2012

تم ایسا کرنا کہ کوئ جگنو کوئ ستارا سنبھال رکھنا


تم ایسا کرنا کہ کوئ جگنو کوئ ستارا سنبھال رکھنا

میرے اندھیروں کی فکر چھوڑو تم اپنے گھر کا خیال رکھنا

اجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئ تھی چاندنی کی
اب اس میں اگنے لگے اندھیرے تو کیسا جی میں ملال رکھنا

دیار الفت میں اجنبی کو سفر ھے درپیش ظلمتوں کا
کھیں وہ راہوں میں کھو نا جائے ذرا دریچہ اجال رکھنا


وہ رسم و راہ ہی نہیں تو پھر یہ اثاثے کس کام کے تمہارے
ادھر سے گزرا کبھی تو لے لوں گا تم میرے خط نکال رکھنا

بچھڑنے والے نے وقت رخصت کچھ ایسی نظر سے پلٹ کے دیکھا

کہ جیسے وہ بھی یہ کہ رہا ہو تم اپنے گھر کا "دھیان" رکھنا

یہ دھوپ چھاں کا کھیل ہے یا خزاں بہاروں کی گھات میں ہے

نصیب صبح عروج ہو تو نظر میں شام زوال رکھنا

کسے خبر ہے کہ کب یہ موسم اڑا کے رکھ دے گا خاک آذر

تم احطیا"ط زمین کے سر پر فلک کی چادر ہی ڈال رکھنا

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets