Sunday 30 September 2012

جس کا چہرہ تھا چمکتے موسموں کی آرزو



خواب کے پھولوں کی تعبیریں پرانی ہو گئیں
خون ٹھنڈا پڑ گیا، آنکھیں پرانی ہو گئیں

جس کا چہرہ تھا چمکتے موسموں کی آرزو
اس کی تصویریں بھی اوراقِ خزانی ہو گئیں

دل بھر آیا کاغذ خالی کی صورت کو دیکھ کر
جن کو کہنا تھا وہ سب باتیں زبانی ہو گئیں

جو مقدر میں تھا اس کو روکنا تو بس میں نہ تھا
ان کا کیا کرتے جو باتیں نا گہانی ہو گئیں

رہ گیا مشتاق دل میں رنگِ یادِ رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہو گئیں


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets