Wednesday 12 September 2012

صحیفہ حُسن کا ، اِس شان سے ہُوا نازل



ردیف ، قافیہ ، بندش ، خیال ، لفظ گری
وُہ حور ، زینہ اُترتے ہوئے سکھانے لگی

صحیفہ حُسن کا ، اِس شان سے ہُوا نازل
خدا کی شان میں ، ہر ’’یاد آیہ‘‘ میں نے پڑھی

کسی کے شیریں لبوں سے اُدھار لیتے ہیں
مٹھاس ، شہد ، رُطب ، چینی ، قند ، مصری ڈَلی

کسی کی مدھ بھری آنکھوں کے آگے کچھ بھی نہیں
تھکن ، شراب ، دَوا ، غم ، خُمارِ نیم شبی

کسی کا زُلف کو لہرا کے چلنا ، اُف توبہ
شرابِ روزِ اَزل کے نشے میں مست پری

کسی کو چلتا ہُوا دیکھ لیں تو چلتے بنیں
غزال ، مورنی ، موجیں ، نجم ، زمانہ ، گھڑی

کسی کے ساتھ نہاتے ہیں تیز بارش میں
لباس ، گجرے ، حیا ، زُلف ، آنکھ ، ہونٹ ، ہنسی

’’بشرطِ فال‘‘ کسی خال پر میں واروں گا
چمن ، پہاڑ ، دَمن ، دَشت ، جھیل ، خشکی ، تری

نگاہیں چار ہوئیں ، وَقت ہوش کھو بیٹھا
صدی ، دَہائی ، برس ، ماہ ، روز ، آج ، اَبھی

عطائے حسن تھی ، قیس اِک جھلک میں شوخ غزل
بیاض ہوتی مکمل ، مگر وہ پھر نہ ملی

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets