Thursday 13 September 2012

کوئلیں پھر بھولےبسرے غم جگانے آگئیں



کوئلیں پھر بھولےبسرے غم جگانے آگئیں
گرمیاں لے کر اُداسی کے خزانے آگئیں

ٹھنڈے دالانوں میں پھر کھلنے لگی دل کی کتاب
جلتی دوپہریں مرا پردا گرانے آگئیں

ڈھک گئیں پھر صندلیں شاخیں سنہری بُور سے
لڑکیاں دھانی دوپٹے سر پہ تانے آگئیں

پھر دھنک کے رنگ بازاروں میں لہرانے لگے
تتلیاں معصوم بچوں کو رجھانے آگئیں

کھل رہے ہوں گے چھتوں پر سانولی شاموں کے بال
کتنی یادیں ہم کو گھر واپس بلانے آگئیں

دھول سے کب تک کوئی شفاف جذبوں کو بچائے
خواہشوں کی آندھیاں پھر خاک اُڑانے آگئیں

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets