Saturday 8 September 2012

کہو، وہ چاند کیسا تھا ؟ مکمل مجموعہ کلام از فاخرہ بتول



فہرست


بتاؤ دل کی بازی میں بھلا کیا بات گہری تھی؟
مکالماتی نظم ۔کہو، وہ چاند کیسا تھا؟
کہا اس نے، زمانہ درد ہے اور تُم دوا جیسے
ساجن کو کیا بھولی صُورت بھا سکتی ہے
مکالماتی نظم ۔ بیا کل ورگ
کب اداسی پیام ہوتی ہے ؟
اس نے کہا، ہے کلیوں کی مجھ کو تو جُستجو
مکالماتی نظم ۔ محبت چاند بُنتی ہے
بول سکھی ، دِل نے کس پل اُکسایا ہو گا؟
تیری آنکھوں میں فصلِ ہجر کیسے بو گیا کوئی؟
یہ کیسی بے خودی ہے ؟
مکالماتی نظم ۔ تمہیں بھی یاد تو ہو گا؟
کہو، کیا جل رہاہے اِس جہاں میں آشیاں اُس کا ؟
ساون کیسے تڑپاتا ہے بول سہیلی بول
جو دل میں ہے سچ بتلانا؟
مکالماتی نظم ۔ ہِجر کا موسم ٹھہر گیا ہے
کیا ہر پل ہر ساعت ہے ؟
ہاتھ کا کنگن کاہے اِتنا شور مچائے؟
ساحل سے ساگر کس پل ٹکرایا ہو گا؟
چُپ چُپ کیوں ہو ؟
کبھی پڑھ لو سمندر پہ لکھا جو نام ہوتا ہے
مکالماتی نظم ۔ فلک کی نظریں
دل نے پھر غم کا راگ چھیڑا ہے
کہو، فلک ! میرے محبوب جیسا کوئی کہیں تھا؟
بول سکھی، کیوں چاہت کا مقسُوم جُدائی ؟
اس نے پوچھا عہد نبھایا ہے ؟
برف سی نین جزیروں میں جمی ہے کیونکر ؟
سہیلی، اب کہو تم نے کہا تھا کچھ بتاؤنگی !
اُس سے پوچھا تھا وفا کی بابت
نظم ۔ چلو ساحل پہ جا کر
وفا کے راہروں کو کیوں سدا برباد دیکھا ہے ؟
پیار کا گھاؤ سُنو ، یُوں نہیں کھایا کرتے
صبا سے مل کر چُنری کاہے مجھ کو ستائے؟
سُنو، اہل وفا نے ہی ہمیشہ کیوں جفا پائی ؟
بتاؤ کون تھا ، کیسا تھا جس سے سلسلہ ٹھہرا؟
بول سکھی، کب تک چاہت کو ٹھکرائے گی؟
نظم ۔ سدا اِک رُت نہیں رہتی
دل میں درد محبت کیسے بوتی رہتی ہے ؟
کہا، اس نے کہ تم تعبیر ہو اور خواب سا ہوں میں
کہو، تم کیوں جھجکتے ہو ؟
کیوں ساجن کی آس نہیں ہے؟
بولو ہیں رنگ کتنے زمانے کے اور بھی؟
نظم ۔ بُھلا دیا نا۔۔۔۔۔۔؟
غیر کے ہات میں ہات ہمارا ؟
تو دل میں کیا تھا تمھارے، ساجن اگر نہیں تھا ؟
سُنو وہ جب ستاتا ہے
کہو، تم نے کبھی خوابوں کے رنگوں کو چُرایا ہے ؟
بولو، بھیگی رُت میں کوئل کیوں روئے ہے؟
اُس نے کہا، کیا چُپ چُپ رہنا اچھا لگتا ہے؟
مکالماتی نظم ۔ مگر اِتنا نہیں ہوتا
کہو، وہ یار کیسا تھا ؟
احساس اپنے ہونے کا کس پل ہوا نہیں؟
آؤسجن سے ملواؤں
پُوچھا، بتاؤ اوج پہ کیوں درد آج ہے ؟ 
مکالماتی نظم ۔ یہ بھی تو سوچو





                         میں نے سمجھا تھا سمندر تُم ہو

تھا کا مطلب تمھیں آتا ہو گا؟

**************************** 

بتاؤ دل کی بازی میں بھلا کیا بات گہری تھی؟
کہا، یُوں تو سبھی کچھ ٹھیک تھا پر مات گہری تھی

سُنو بارش ! کبھی خود سے بھی کوئی بڑھ کے دیکھا ہے؟
جواب آیا، اِن آنکھوں کی مگر برسات گہری تھی

سُنو، پیتم نے ہولے سے کہا تھا کیا، بتاؤ گے؟
جواب آیا، کہا تو تھا مگر وہ بات گہری تھی

دیا دل کا سمندر اُس نے تُم نے کیا کیا اس کا؟
ہمیں بس ڈوب جانا تھا کہ وہ سوغات گہری تھی

وفا کا دَشت کیسا تھا، بتاؤ تُم پہ کیا بِیتی ؟
بھٹک جانا ہی تھا ہم کو ، وہاں پر رات گہری تھی

تُم اس کے ذکر پر کیوں ڈوب جاتے ہو خیالوں میں؟
رفاقت اور عداوت اپنی اس کی سات گہری تھی

نظر آیا تمہیں اُس اجنبی میں کیا بتاؤ گے؟
سُنو، قاتل نگاہوں کی وہ ظالم گھات گہری تھی

**************************** 

کہو وہ چاند کیسا تھا ؟



کہو ، وہ دَشت کیسا تھا ؟
جِدھر سب کچھ لُٹا آئے
جِدھر آنکھیں گنوا آئے
کہا ، سیلاب جیسا تھا، بہت چاہا کہ بچ نکلیں مگر سب کچھ بہا آئے
کہو ، وہ ہجر کیسا تھا ؟
کبھی چُھو کر اسے دیکھا
تو تُم نے کیا بھلا پایا
کہا ، بس آگ جیسا تھا ، اسے چُھو کر تو اپنی رُوح یہ تن من جلا آئے
کہو ، وہ وصل کیسا تھا ؟
تمہیں جب چُھو لیا اُس نے
تو کیا احساس جاگا تھا ؟
کہا ، اِک راستے جیسا ،جدھر سے بس گزرنا تھا ، مکاں لیکن بنا آئے
کہو ، وہ چاند کیسا تھا ؟
فلک سے جو اُتر آیا !
تمھاری آنکھ میں بسنے
کہا ، وہ خواب جیسا تھا ، نہیں تعبیر تھی اسکی ، اسے اِک شب سُلا آئے
کہو ، وہ عشق کیسا تھا ؟
بِنا سوچے بِنا سمجھے ،
بِنا پرکھے کیا تُم نے
کہا ، تتلی کے رنگ جیسا ، بہت کچا انوکھا سا ، جبھی اس کو بُھلا آئے
کہو ، وہ نام کیسا تھا ؟
جِسے صحراؤں اور چنچل ،
ہواؤں پر لکھا تُم نے
کہا ، بس موسموں جیسا ، ناجانے کس طرح کس پل کسی رو میں مِٹا آئے

****************************

کہا اُس نے ، زمانہ درد ہے اور تُم دوا جیسے
لگا، "تُم سے محبت ہے" مجھے اُس نے کہا جیسے

طلب کی اُس نے جب مجھ سے محبت کی وضاحت تو
بتایا، دَشت کے ہونٹوں پہ بارش کی دُعا جیسے

سُنو کیوں دل کی بستی کی طرف سے شور اُٹھتا ہے ؟
بتایا، حادثہ احساس کے گھر میں ہوا جیسے

کہو اے گُل ! کبھی خوشبو کا تُم نے عکس دیکھا ہے ؟
کہا ، قوسِ قزح کے سارے رنگوں کی صدا جیسے

سُنو ، خواہش کی لہروں پر سنبھلنا کیوں ہوا مُشکل ؟
بتایا پانیوں پر خواب کی رکھی بنا جیسے

بھلا تُم رُوح کی اِن کِرچیوں میں ڈھونڈتے کیا ہو ؟
کہا ، یہ اتنی روشن ہیں کہ سُورج ہے دیا جیسے

سُنو آنکھوں ہی آنکھوں کا بیاں کیسا لگا تُم کو ؟
لگا ، پھولوں سے سرگوشی سی کرتی ہو صبا جیسے

****************************


ساجن کو کیا بھولی صُورت بھا سکتی ہے ؟
پگلی، چاند ستاروں کو شرما سکتی ہے

سُورج سے کیا بڑھ کر پیار میں شکتی ہے ؟
پگلی، پانی میں تو آگ لگا سکتی ہے

کیوں نیندوں میں رات کو جُگنو جگمگ جاگیں
پگلی، نیند کی دیوی کو سمجھا سکتی ہے

کھنک مِرے لہجے کی اتنی سُندر کیوں ؟
پگلی بارش تیرا گیت چُرا سکتی ہے

کیوں بھنورے کے جال میں کلیاں آتی جائیں؟
پگلی ، بادل سے بجلی کترا سکتی ہے

رات کے تھال میں بولو کتنے تارے دیکھے؟
پگلی ، ریت کے ذروں کو گِنوا سکتی ہے

کیوں کہتا ہے جگ سے میل نہیں ہے بہتر؟
پگلی ، لوگوں کی باتوں میں آ سکتی ہے

پریت کی نگری جانے پر پابندی کیوں ہے ؟
پگلی ، راہ کٹھن ہے تُو گھبرا سکتی ہے

سُرخ گُلاب کے بدلے اس کو کیا میں بھیجوں ؟
پگلی ، سندرتا سے کام چلا سکتی ہے

سُورج کے چہرے پر کالا بادل کیوں؟
پگلی ، مکھڑے سے تو زُلف ہٹا سکتی ہے

اب تک مَن نِردوش اسے کہتا ہے کیونکر؟
پگلی ، دُھول کو کیسے پھُول بنا سکتی ہے

****************************

بیا کل روگ

بیاکل روگ کیسا تھا ؟
انوکھا جوگ جیسا تھا؟
نہیں پل بھر رہا قائم
وہ اِک سنجوگ کیسا تھا؟
سمندر میں کسی تنہا جزیرے کی طرح شاید
ادُھورے خواب کی مانند ،
کسی بھی چاند کی مژگاں پہ چمکا تھا ،
ستارے کی طرح پَل بھر
گُلابی پتیوں پر اوس کی بُوندوں کی صُورت میں
مگر جاناں ! ذرا سوچو
تمہیں کیسے بتاؤ میں ،
وہ دل کا روگ کیسا تھا


****************************


کب اُداسی پیام ہوتی ہے ؟
جب محبت تمام ہوتی ہے

کس کے چہرے پہ صبح جاگے ہے ؟
جس کی آنکھوں میں شام ہوتی ہے

عشق بنتا ہے کس گھڑی صّیاد ؟
جب وفا زِیر دام ہوتی ہے

ٹیس بنتی ہے آگہی کیسے ؟
خود سے جب ہم کلام ہوتی ہے

کیا کمی ہے طلب کی راہوں میں ؟
گفتگو نا تمام ہوتی ہے

دل کو بھاتی ہے کب صبا بولو؟
جب کسی کا پیام ہوتی ہے

یہ محبت ہے کیا بتاؤ گے؟
خاص شے ہے جو عام ہوتی ہے 

****************************

اُس نے کہا ، کہ کلیوں کی مُجھ کو تو جُستجو
بھنورے سے مِلتی جُلتی ہے میں نے کہا یہ خُو

پُوچھا، بتاؤ درد کو چُھو کر لگا ہے کیا ؟
آیا جواب ، پوروں سے رسنے لگا لہو

دیکھا ہے کیا فلک پہ وہ تنہا اُداس چاند؟
آیا جواب ، اُس کو کسی کی ہے جُستجو !

ہوتی ہے کیوں یہ اَشکوں کی برسات رات بھر
آیا جواب ، آنکھوں کا ہوتا ہے یُوں وضو

پُوچھا گیا نصیب کے سُورج کا کیا بنا ؟
میں نے کہا وہ سو گیا ، ایسا بنا عدو

پُوچھا ، نمی سے ، دُھند سی آنکھوں میں کس لئے ؟
آیا جواب ، ہجر کی ان میں ہوئی نمو

پُوچھا ، بچھڑتے پل کی کوئی اَن کہی ہے یاد ؟
تارِ نفس پہ لکھی ہے اب تک وہ گفتگو

پوچھا ، سنو وصال کی چٹخی ہے کیوں زباں؟
میں نے کہا ، فراق کا صحرا تھا رُوبرو


**************************** 


محبت چاند بنتی ہے ۔۔۔۔۔۔



محبت اَن گنت تاروں سے مل کر چاند بنتی ہے
جھلک دِکھلا کے چھُپ جانا
کبھی جانا کبھی آنا تو فطرت ہے ستاروں کی
بتاؤ کیوں کہا تُم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کہا یہ بھی کہ پلکوں بیچ سپنے اِس طرح بے چین ہوتے ہیں ،
کہ جیسے ریت کے ذرّے بگولوں میں ،
جواب اُس نے دیا مُجھ کو ،
کبھی خوشبو کو شبنم میں بھی گوندھا ہے ہواؤں نے ؟
کبھی پھُولوں کے رنگوں کو بھی چُوما ہے صداؤں نے؟ 

**************************** 


لوگ کیوں آ گئے مٹانے کو
ہم نے کب شہرِ دل بسایا تھا؟


**************************** 

بول سکھی ، دل نے کس پل اُکسایا ہو گا ؟
پگلی ، جس پل اُس کا درشن پایا ہو گا

بول سکھی ، کیوں چندہ تُجھ کو تانکے جھانکے؟
پگلی ، اس کو آخر کچھ تو بھایا ہو گا

بول سکھی ، نینوں سے نیند چُرائی کس نے ؟
پگلی ، وصل کا جس نے خواب دکھایا ہو گا

بول سکھی ، وہ رُوٹھا رُوٹھا کیوں لاگے ہے ؟
پگلی ، بیری لوگوں نے سکھلایا ہو گا

بول سکھی ، کیوں منوا جل کر طُور بنا ہے ؟
پگلی ، پیتم نے جلوہ دِکھلایا ہو گا

بول سکھی ، کیوں سُرخ گُلاب کسی نے بھیجا؟
پگلی ، پیت کا سندیسہ بھجوایا ہو گا

بول سکھی ، یہ تَن مَن کس کی بھینٹ چرھاؤں ؟
پگلی ، جس کے کارن جیون پایا ہو گا

بول سکھی ، کیوں نٹ کھٹ سکھیاں چھڑیں مجھ کو ؟
پگلی ، تو نے بھید انہیں بتلایا ہو گا

بول سکھی ، منڈیر پہ کاگا کیوں بولے ہے ؟
پگلی ، تیرے در پر جوگی آیا ہو گا !

بول سکھی ، وہ بن ٹھن کر کیوں نکلا گھر سے ؟
پگلی ، بیرن سوتن نے بُلوایا ہو گا


**************************** 

تِری آنکھوں میں فصلِ ہجر کیسے بو گیا کوئی؟
مجھے اپنا بنا کر اب کسی کا ہو گیا کوئی

لہُو جیسے ہوئے ہیں اَشک تیرے کس طرح بولو ؟
بتایا ، چھید میرے دل کے اندر ہو گیا کوئی

سُنو جب چھو لیا آنچل کسی نے تو لگا کیسا ؟
لگا خوشبو کی بارش میں دُکھوں کو دھو گیا کوئی

سُنو اس درد نگری کا کوئی تو بھید بتلاؤ ؟
پلٹ کر پھر نہیں آیا وہاں پر جو گیا کوئی

بتاؤ ہجر میں کاٹے ہیں روز و شب بھلا کیسے؟
لگا ، کانٹوں پہ آنکھیں دھر کے جیسے سو گیا کوئی

بھلا وہ شخص پل بھر کو نظر اب کیوں نہیں آتا؟
سُنو ملنے کی خواہش میں کبھی کا کھو گیا کوئی


**************************** 

یہ کیسی بے خودی ہے ؟
مقابل وہ گلی ہے

ہے کیا آنکھوں میں بولو ؟
نمی ہے ، روشنی ہے

بتاؤ وصل ہے کیا ؟
یہی تو زندگی ہے

یہ کیا پلکوں پہ جاگا ؟
یہ کربِ آ گہی ہے

یہ اتنا تلخ لہجہ ؟
کسک بے حد سہی ہے

کبھی جینے کا سوچا ؟
کمی شاید یہی ہے

ہے دل کیوں ڈوبتا سا ؟
خلش جو بڑھ گئی ہے

ہے کیا جیون میں آخر ؟
فقط تیری کمی ہے

ہے کیا تحریر دل پر ؟
وفا ، جو اَن کہی ہے 


**************************** 


تمہیں بھی یاد تو ہوگا ؟




تمہیں بھی یاد تو ہوگا ؟
کسی کے پیار کو ٹھکرا کے تم نے بے نیازی سے ،
کہا تھا جب
کسی ھی خواب کی تعبیر مٹھی میں نہیں ہوتی
کوئی بھی ہجر پلکوں پر ،
سدا اٹکا نہیں رہتا
ہمیشہ درد وابستہ نہیں رہتا کسی دل سے
کبھی تم نے کہا تھا یہ
تمہیں بھی یاد تو ہو گا ؟؟


****************************


کہا ، یہ تھام لی دیوار تو یونہی ورنہ
نہیں بچھڑنے کا مجھ کو کوئی ملال نہیں 


****************************


کہو، کیا جل رہا ہے پھر جہاں میں آشیاں اس کا ؟
نہیں ، جب دل سلگتا ہے تو اٹھتا ہے دھواں اس کا

بھلا کیوں پھول کی پہچان بنتی ہے مہک اسکی ؟
سنو ، سورج کی کرنوں سے ہی ملتا ہے نشاں اس کا

کہو، کیا راہِ الفت میں دل و جاں وار سکتے ہو ؟
سنو ، دل کی زمیں اس کی نظر کا آسماں اس کا

بھلا کب دنی پڑتی ہے وضاحت سامنے سب کے ؟
پتہ جب پوچھتی ہیں آکے ہم سے دوریاں اس کا

خطا دونوں کی تھی لیکن سزا کیوں ایک نے پائی؟
سنو تنہا تھا دل اپنا مگر سارا جہاں اس کا

سنو ، اس بیوفا کی یاد تو آتی نہیں ہو گی ؟
سنو ، دل رک سا جاتا ہے جو آتا دھیاں اس کا

سنو، وہ ہر جگہ جاکر تمہیں بدنام کرتا ہے !
کہا، یہ جاں سلامت ہے ، رہے جاری بیاں اسکا

بچھڑ کر کیا کبھی سوچا اسے ملنے کے بارے میں ؟
سنو، دھرتی کے ہم باسی ، فلک پر ہے مکاں اس کا


****************************

ساون کیسے تڑپاتا ہے بول سہیلی بول
کیسے سوچیں بکھراتا ہے بول سہیلی بول؟

باتوں میں بہلانے کی ہر کوشش ہے بیکار
وہ ہرجائی یاد آتا ہے بول سہیلی بول؟

اس نے خواب جو دکھلایا تھا اکثر راتوں کو
چھاجوں پانی برساتا ہے بول سہیلی بول

بول تو، ہونٹوں کی یہ لالی مدہم کس نے کی
کاجل پھیل سا کیوں جاتا ہے بول سہیلی بول؟

ساجن کے آنے کی جب کوئی امید نہیں
کاگا چھت پر کیوں آتا ہے بول سہیلی بول؟

گھاؤ دل پر کھا کر بھی جو لب ناں کھول سکے
کیوں وہ پتھر کہلاتا ہے بول سہیلی بول؟

تھک کر تو نے بھی مٹی کو اوڑھ لیا پگلی !
بول مِرا دل گھبراتا ہے بول سہیلی بول


****************************


جو دل میں ہے سچ بتلانا؟
اپنا پیار ، نہیں افسانہ

کیوں شمع پر جان لٹائے ؟
اس کو کہتے ہیں پروانہ

چنچل آنچل کیا کہتا ہے ؟
اب نہ چلے گا کوئی بہانہ

بولو من کو کیا بھاتا ہے ؟
اپنے ساجن سے شرمانا

دیکھوں دنیا کیا کہتی ہے ؟
کام ہے اس کا شور مچانا

ساجن ، ہر پل کیا سوچو ہو ؟
دیکھو پھر سے کھو مت جانا

ساتھ کہاں تک دے پاؤ گے؟
جب تک جیون کا پیمانہ

راہ کٹھن ہے ، تھک جاؤ گے
پیار نے سیکھا کب پچھتانا؟


****************************

(مکالماتی نظم)

ہجر کا موسم ٹھہر گیا ہے


اس نے پوچھا تھا
سارے سپنے ٹوٹ گئے کیا؟
میں نے کہا ،
کچھ کچھ باقی ہیں
اس نے پوچھا ،
خود سے باتیں کرنے کی عادت ہے کب سے ؟
تحفہ دیا ہے میں نے بتایا ،تنہائی نے
نین کٹورے، گال گلابی، روپ سنہرا ، کیا کر ڈالا؟
میں نے کہا دل کے آنگن میں ،
ہجر کا موسم ٹحہر گیا ہے ۔

****************************


بیچ بھنور کے تنہا چھوڑ کے پوچھتے ہو
ساگر گہرا ہو تو بولو کیا ہوتا ہے؟


****************************

کیا ہر پل ہر ساعت ہے ؟
پیار ، جو ایک عبادت ہے

عشق ہے مجبوری یا عادت ؟
دل کی عشق ضرورت ہے

وصل کی صدیوں پل جیسی کیوں ؟
ان کی اپنی قسمت ہے

تنہائی کے خول میں جھانکو ؟
بس فرصت ہی فرصت ہے

ہات پہ تیرے نام کسی کا؟
یہ تو صرف شرارت ہے

کیوں ہیں لوگ وفا سے دور ؟
من میں کھوٹ کدورت ہے

سناٹا ہے کیوں چہرے پر ؟
بوجھل آج طبیعت ہے

کیوں بے تاب ہوئی دھڑکن ؟
بے تابی میں راحت ہے

فرقت کی تعریف بتا
موت جو ایک حقیقت ہے

کہتے کہتے رک سے گئے ؟
آپ سے ایک شکایت ہے

بوجھل بوجھل پلکیں کیوں؟
آنکھوں میں اِک مورت ہے

****************************


بتول آؤ کبھی تو ان سے پوچھیں
ستارے رات بھر کیوں جاگتے ہیں؟

****************************


ہاتھ کا کنگن کاہے اتنا شور مچائے؟
شاید کوئی بھٹکا راہی گھر کو آئے

چوری چوری چندا کیسے چھت پر اترا ؟
جیسے ناری پیشانی سے زلف ہٹائے

بوجھو تو آنچل کو اس نے چوما کیسے؟
جیسے بھنورہ کلی کلی کا روپ چرائے

وہ پلکوں میں اترا چھم سے بولو کیسے ؟
جیسے رانجھا ہیر کی آنکھوں میں مسکائے

جگ نے کیسے جان لیا، ملنے کو آئی؟
گوری تیرے پیر کی جھانجھر شور مچائے

بول سہیلی، پریت کو کیسا پایا تو نے؟
جیسے پل میں کوئی جل میں آگ لگائے

کیسا لگتا ہے سجنا کے گاؤں جاکر؟
گویا دل دونوں ہاتھوں سے نکلا جائے

سچ سچ بولو، پیڑ تلے کیا بات ہوئی تھی؟
بھید ملن کا سوچو کوئی کیوں بتلائے

سکھیوں سے کب بات چھپا سکتا ہے کوئی
پگلا من تو خود سے بھی ہر بات چھپائے

****************************


اس کی قربت کا پوچھتے کیاہو
آگ پانی میں وہ لگا جائے

****************************


ساحل سے ساگر کس پل ٹکرایا ہو گا؟
جس پل آس نراس کو باہم پایا ہو گا

بھنور بھئے کیوں دھیرے دھیرے لب مسکائیں؟
شب، تیرے سپنے میں کوئی آیا ہو گا

سرگوشی سی کرتی ہیں کیوں آج ہوائیں؟
کوئی بھنورہ کلیوں پر منڈلایا ہو گا

بولو ہنستے ہنستے پلکیں بھیگ گئی کیوں ؟
کالی گھٹاؤں سے سورج ٹکرایا ہو گا

لوگ کہانی لکھنے پھر سے بیٹھ گئے کیوں؟
پھر سے کسی نے دھوکہ پیار میں کھایا ہو گا

آن اترے جب دھرتی پر تارے ، تو بولا
تو نے پلکوں کو یکبار اٹھایا ہو گا

آج شرارت پر اترا ہے نٹ کھٹ آنچل؟
اِس کو شوخ ہواؤں نے اکسایا ہو گا

سرخ گلابوں میں خوشبو کو گھولا کس نے؟
دیکھ کے تجھ کو چاند بہت شرمایا ہو گا


****************************


میں نے پوچھا ہے گہر سے آخر
سیپ میں کیسے اتر جاتے ہیں ؟


****************************

چپ چپ کیوں ہو ؟
بات نہیں ہے

کیا ہے جیت میں؟
مات نہیں ہے

زیست کٹے گی ؟
رات نہیں ہے

دل کیوں ٹوٹا ؟
دھات نہیں ہے

ہے کیا بات میں ؟
بات نہیں ہے

کیا ہے عشق میں ؟
ذات نہیں ہے


****************************


کبھی پڑھ لو سمندر پر لکھا جو نام ہوتا ہے
مگر پانی میں جو بھی نام ہے بے نام ہوتا ہے

نہیں ہوتا تمہیں اب درد ہجراں؟ یہ بھی بہتر ہے
سنو ،یہ درد تو ہرگام ہر دو گام ہوتا ہے

کہو، تم سیپ کے من میں ستارہ گم ہوا کیسے؟
کہا ، مٹی میں جیسے ہر بشر گمنام ہوتا ہے

کہو، کیا گفتگو اب خود سے بھی کرنے سے ڈرتے ہو؟
کہا، ہوتی ہے خود سے گفتگو جب کام ہوتا ہے

سنو جب ہونٹ سل جائیں تو تب اظہار ممکن ہے؟
کہا ، پلکوں کی چلمن میں بھی اِک پیغام ہوتا ہے

کہا، دل ہار کے آنکھیں لہو کرنے سے کیا حاصل؟
بتایا، آرزو کا بس یہی انجام ہوتا ہے



****************************

(مکالماتی نظم)

فلک کی نظریں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔




کہا فلک نے زمیں سے جھک کر
نظر اٹھا کر کبھی تو دیکھو
کہ میرے سینے میں اَن گنت یہ الاؤ روشن کیے کس نے
زمانہ اِن کو چمکتا خورشید ، ماہ و انجم کا نام دے کر بہل گیا ہے
دہکتے، سلگتے داغوں میں دل یہ میرا بدل گیا ہے
زمیں نے دل میں پڑی دراڑوں پہ ہاتھ رکھ کر ،
جگر کی نازک کٹی پھٹی سی ، رگوں کو چھو کر ،
فلک کو دیکھا
زمیں کی نظروں میں جانے کیا تھا
فلک کی نظریں بھی جھک گئی ۔



****************************


پلکیں بھیگی بھیگی سی
پتھر بھی کیا روتے ہیں؟


****************************


دل نے پھر غم کا راگ چھیڑا ہے
کیا کوئی تار اسکا ٹوٹا ہے؟

چاند کو دیکھ کر کبھی سوچا؟
ہاں، یہ اپنی طرح سے تنہا ہے

پھر پکارا ہے پیار سے کس نے؟
آپ نے دن میں خواب دیکھا ہے

اس نے وعدہ کیا تھا ، آیا وہ ؟
سانحہ سا یہی تو گزرا ہے

پہلے ساگر میں آنکھ تھی اور اب؟
اب تو ساگر اسی میں رہتا ہے

تم نے منزل گنوا کے کچھ پایا؟
خوف، جو راستوں سے آتا ہے

بھولنے والے کو بھلا ڈالو
با رہا ہم نے ایسا چاہا ہے

دل جو ٹوٹا تو کیا گماں گزرا ؟
کرچیاں بن کے بھی دھڑکتا ہے

وصل آنکھوں سے کب مٹا بولو ؟
ہجر اِن میںکبھی کا ٹِھہرا ہے


****************************


کہو فلک ، میرے محبوب جیسا کوئی کہیں تھا؟
بتایا اس نے تمھارا ساتھی بہت حسیں تھا

ذرا بتاؤ گے تم نے اس کو کہاں پہ دیکھا؟
جہاں پہ تھا ماہ و شوں کا جمگھٹ وہ بس وہیں تھا

بتاؤکیسا تھا جس کو اس نے بنایا ہمدم؟
کہا حقیقت ہے تم سے بڑھ کر وہ کچھ نہیں تھا

سنو کسی کو وہاں پہ اس نے گلاب سونپا ؟
گلاب ہر ایسے ہاتھ میں تھا جو دلنشیں تھا

کہو، ہواؤں پہ گھر بنانے کا کاہے سوچا؟
کہا، کہ مشکل تھا کام لیکن مجھے یقیں تھا

خبرہے، آندھی نے وہ شجر بھی گرا ہی ڈالا ؟
سنو، وہی تو مِری وفاؤں کا اِک امیں تھا

بتاؤ، دوری کا دشت تم نے چنا ہے کیسے؟
بتایا، سورج جو میرے دل کے بہت قریں تھا



****************************


میں بھی نہیں ہوں تو بھی نہیں ہے تو اور پھر
وہ کون ہے جو صحن میں دیوار کر گیا ؟


****************************


بول سکھی، کیوں چاہت کا مقسوم جدائی؟
پگلی، روتی اسی لئے تو ہے شہنائی !

بول سکھی، یہ اکھیاں کاہے سپنے دیکھیں؟
پگلی، ان میں آن بسا ہے اِک سودائی

بول سکھی، کیوں شہر میں جاکر بھول گیا وہ؟
پگلی، تیرا پیتم لگتا ہے ہرجائی

بول سکھی، کیوں بیکل بیل سی پھرتی ہوں؟
پگلی، دل ہے تیرا لیکن پریت پرائی

بول سکھی، کیوں دل ہاتھوں سے نکلا جائے؟
پگلی، اس کے کہنے میں تو کیوں تھی آئی

بول سکھی، یہ پیت کا شعلہ بھڑکا کیسے ؟
پگلی، تیرے کاجل نے یہ آگ لگائی

بول سکھی، کیوں پیر نہیں دھرتی پر ٹکتے ؟
پگلی، اس نے پائل جو تجھ کو پہنائی

بول سکھی، وہ کیوں آتا ہے مجھ سے ملنے؟
پگلی، تو نے جگ سے کیونکر بات چھپائی

بول سکھی، بے تال ہوئی ہے کب سے دھڑکن؟
پگلی، اس نے جب سے تیری نیند چرائی


****************************


کبھی کبھی تو ہوائیں آ آکے پوچھتی ہیں
وہ شخص اپنا بہت ہی اپنا لگا تو ہو گا؟


****************************


اس نے پوچھا وچن نبھایا ہے ؟
خود کو میں نے کہا ، مٹایا ہے

میں نے جل کر کہا بھلا ڈالا
اس نے تب آئینہ دکھایا ہے

جب کہا غم نہیں بچھڑنے کا
تب وہ دھیرے سے مسکرایا ہے

اِس قدر خوش ہو کس لیئے پوچھا ؟
وہ یہ بولا ، تجھے ستایا ہے

میں پوچھا جفا پسند پو تم؟
سر کو اقرار میں ہلایا ہے

ساتھ چلنے کا میں نے جب پوچھا
اس نے انکار کر دکھایا ہے

زندگی کیا ہے جب کبھی پوچھا
اس نے اِک حادثہ بتایا ہے

پوچھا جب دل لگی کے بارے میں؟
اس کے چہرے پہ رنگ آیا ہے

جب یہ پوچھا رقیب کیسا تھا؟
چوم کر پھول گنگنایا ہے

کیا ملا تم کو بیوفائی سے؟
وہ یہ بولا مزا تو آیا ہے

میں نے پوچھا ہوا ہے قتل کوئی؟
اس نے میرا پتہ بتایا ہے



****************************


کیوں بھلا درد نے جاگیر بتایا دل کو ؟
اس کا یہ حق ہے تو پھر کیوں نہیں دعوی ہو گا

****************************


برف سی نین جزیروں میں جمی ہے کیونکر ؟
دھوپ نکلے گی تو پھر اِس کا مداوا ہو گا

کتنا خاموش سمندر ہے ذرا دیکھو تو ؟
اِس کی تہہ میں بھی یقیناً کوئی لاوا ہو گا

دل کے ہر تار میں کیوں گیت انوکھا جاگا؟
شہرِ گل سے تمہیں لگتا ہے بلاوا ہو گا



**************************** 


سہیلی، اب بتا تو نے کہا تھا کچھ بتاؤ گی !
سکھی، سوچا ہے اب کے خواب کا چہرہ بناؤں گی

سہیلی، تیرے ساجن نے کسی سے ناطہ جوڑا تو ؟
سکھی، پروا نہیں کوئی ، نہیں خاطر میں لاؤں گی

سہیلی، جانتی ہے مرد تو بیدرد ہوتا ہے
سکھی، وہ ڈول جائے گا میں جب کاجل لگاؤں گی

سہیلی، اس کو بھاتی ہے صدا کلیاں چٹکنے کی
سکھی مبہووت ہو جائے گا میں، جب گنگناؤں گی

سہیلی، تیرے ساجن کو ہرن کی چال بھاتی ہے
سکھی، اِس چال سے ایمان اس کا ڈگمگاؤں گی

سہیلی، خواب وادی میں اسے بھیجے گی تو کیونکر؟
سکھی، میں ریشمی باتوں کا جب جاور جگاؤں گی

سہیلی، سب گِلے شکوے بھلا وہ کب بھلائے گا؟
سکھی، پلکوں کی جھالر کو میں جب یکدل اٹھاؤں گی

سہیلی، تیری باتوں میں نہیں آیا تو کیا ہو گا ؟
سکھی، ہونٹوں کی لالی سے میں اس کو آزماؤں گی

سہیلی، یہ بھی ممکن ہےکہ تجھ کو چھوڑ جائے وہ
سکھی، اِس زلف کی زنجیر سے میں باندھ لاؤں گی

سہیلی، گر یہ ساری کوششیں بیکار نکلیں تو؟
سکھی، اشکوں سے بھی تو کام کچھ نہ کچھ چلاؤں گی

سکھی، ہر بات ساجن کی تجھے معلوم ہے کیسے ؟
سہیلی، اب تو جانے دے، میں پھر آکر بتاؤں گی



****************************


میں نے خوشبو کی حقیقت پوچھی
پھول خاموش رہا دیر تلک


()


اس نےپوچھا کہ مجھے یاد کیا ؟
میں نے تب ہنس کے کہا، دیر تلک
**************************** 


اس نے پوچھا تھا وفا کی بابت
درد بڑھتا گیا ، بڑھتا ہی گیا

کچھ کیا شمع نے اور پروانہ
رقص کرتا گیا ، کرتا ہی گیا

اس نے پوچھا کہ مرے دل میں ہے کیا ؟
دل جو دھڑکا تو ، دھڑکتا ہی گیا

چھین کر نیند وہ بولا، کیونکر ؟
خواب مرتا گیا ، مرتا ہی گیا

مِرے اشکوں کا سبب مت پوچھو
جام چھلکا تو ، چھلکتا ہی گیا




**************************** 

(مکالماتی نظم)

چلو ساحل پہ جا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔



چلو ساحل پہ جاکر اپنی پلکوں سے ،
سنہرا جال بنتے ہیں
سمندر میں اتر کر،
سیپیوں سے کچھ سریلے تال بنتے ہیں
چلو اب انگلیوں کی نرم پوروں سے،
ذرا خوشبو کو چنتے ہیں
ذرا ہم درد کو چھوتےہیں ، اس کیبات سنتے ہیں
چلو ساحل پہ جاکر ۔۔۔۔۔۔
گلابوں کی کنواری پتیوں پر شبنمی موتی،
چمک اٹھتے ہیں لخطے کو ،
مگر پھر بجھ بھی جاتے ہیں
کہ دشتِ آرزو کی ریت آنکھوں میں کھٹکتی ہے
چلو ساحل پہ جاکر ۔۔۔۔۔۔
رو پہلی چاند کی کرنوں کو مٹھی بیچ بند کر کے،
ہواؤں سے بھی ساتوں سر چراتے ہیں
چلو مٹی کا اِک چھوٹا سا دونوں گھر بناتے ہیں
گھڑی بھر کو سِہی پر کھل کے دونوں مسکراتے ہیں
جو لکھے جا چکے ہیں پتھروں پر، خشک پتوں پر،
وہ ماہ و سال گنتے ہیں
چلو ساحل پہ جاکر اپنی پلکوں سے ،
سنہرا جال بنتے ہیں



**************************** 


پیار خوشبو ہے تو پابندِ رسن کیسے ہے ؟
ہے جو طوفان تو پھر اس کا سمٹنا کیسا؟



**************************** 



وفا کے راہرو کو کیوں سدا برباد دیکھا ہے؟
کہا، طوفان میں گِھر کر کوئی آباد دیکھا ہے؟

نہیں ناتہ اگر کوئی تو کیوں آئے تھے سپنے میں ؟
جواب آیا نہیں تھا میں، مرا ہمزاد دیکھا ہے

سنو، کیسے محبت پر ہوا ایمان پھر قائم؟
بتایا، ایک پتھر کو بہت ناشاد دیکھا ہے

زمانے میں کوئی دیکھا ہے جس نے دل کی نا مانی؟
کہا، کچھ ٹھیک سے مجھ کو نہیں ہے یاد دیکھا ہے

سنو، کیوں دید کا دیدار سے رشتہ سدا ٹھرا؟
کہا، خوشبو سے پھولوں کو کبھی آزاد دیکھا ہے؟


****************************


پیار خورشید نہیں ہے تو یہ جلتا کیوں ہے ؟
نہیں سیماب اگر یہ تو مچلنا کیسا !



**************************** 


پیار کا گھاؤ سنو، یوں نہیں کھایا کرتے
مشورے آپ کے، ہم کو نہیں بھایا کرتے

اتنے خاموش ہو کیوں ، شوخئی مسکان کہاں ؟
دل ہو برباد تو پھر لب نہیں گایاکرتے

دشتِ نیناں میںسمندر کو بسایا کیونکر ؟
آپ ہی ان میں کوئی خواب بسایا کرتے

کہا، تتلی سے بھی کچے ہیں گلوں کے رشتے
بولا، خاروں کو نہیں ایسے بتایا کرتے

مِٹ گیا آنکھ کی پتلی سے کہا اس نے ، وہ عکس
کہا، ایسے نہیں اپنوں کو ستایاکرتے



**************************** 

کب بھرا کرتی ہے قسمت کوئی دامن ،ہر شخص
تھال سے اس کے گہر آپ چنا کرتا ہے


**************************** 


ہوا سے مل کر چنری کاہے مجھ کو ستائے؟
سجنی، اڑ اڑ کر تجھ کو یہ کچھ سمجھائے

رنگ ہتھلی پر مہندی کا کیسا لا گے ؟
لگتا ہے اِک شعلہ سا اس پر لہرائے

ہونٹوں کی یہ لالی آخر کیا کہتی ہے؟
سجنی، گیت ملن کا کوئی تو بھی گائے

بولو، ماتھے کی یہ بندیا کیوں چھیڑے ہے؟
یہ کہتی ہے تو ساجن کا ساتھ نبھائے

کان کا جھمکا ہولے ہولے کیا کہتا ہے؟
تیرا سجنا شہر سے تجھ کو ملنے آئے !

کس کے لئیے ہے بولو یہ چوڑی کی کھن کھن ؟
جس کے شانوں پر تو زلفون کو لہرائے

آنچل کیوں بیتاب ہے گھونگت بن جانے کو؟
گوری، اس کو خواب کسی نے ہیں دکھلائے

چاندی میں سندور ملایا کس نے بولو؟
جس نے سرخ گلابوں کے ہیں رنگ چرائے

کیوں تکتا ہے چندا بدلی سے چھپ چھپ کر؟
تیرے روپ سنہرے سے چندا شرمائے


**************************** 


زمیں سے کرچیاں تو چن رہی ہے آج بتول
نہیں کہا تھا تجھے دل کو تو سنبھال ، نہیں؟


****************************


سنو، اہل وفا نے ہی ہمیشہ کیوں جفا پائی؟
کہا، جیسے شہیدوں نے فنا ہو کر بقا پائے

بھلا یہ چاند ، تارے، صبح کیوں چہرہ چھپاتے ہیں؟
بتایا، رتجگو کی ماہ و انجم نے سزا پائی

کہو، ملفوف کیونکر ہر کلی ہر گل میں ہے خوشبو؟
کہا، دھڑکن نے جیسے دل میں بسنے کی ادا پائی

سوال اٹھا، دوئی کا کرب آخر کیوں کیا پیدا؟
جواب آیا کہ جذبوں نے اسی سے انتہا پائی

کہو، کیسے جفاؤں کا یہ کالا جال ٹوٹے گا؟
کہا، اس کے اسیروں نے تو سنتے ہیں وفا پائی

کہو، کیوں کرّوفر اچھا نہیں راہِ محبت میں؟
کہا، جو یار کے در پر جھکا اس نے انا پائی


****************************

کوئی اشجار سے بھی جاکے پوچھے
وہ ہر رت سے بھلا کیونکر لڑے ہیں؟


****************************


بتاؤ کون تھا ، کیسا تھا جس سے سلسلہ ٹھہرا؟
کہا کرکے وفا کا خون آخر بے وفا ٹھہرا

بھلا پھولوں سے بھنورے کس زباں میں بات کرتے ہیں؟
کہا، خوشبو سے خوشبو کا انوکھا رابطہ ٹھہرا

ذرا بتلاؤ اِک انجان پر اتنی عنایت کیوں؟
کہا، دل کے صحیفے میں یہی تو معجزہ ٹھہرا

سنو کیسا لگا اس شخص سے ملنا ، بچھڑ جانا؟
ملا تو اجنبی تھا وہ ، بچھڑ کر آشنا ٹھہرا

بھلا محبوب سو پردوں میں بھی کیونکر نمایاں ہے ؟
ازل سے تا ابد دل کے ، وہ کعبے کا خدا ٹھہرا

پلٹ کر ہر طرف سے کیوں نظر اس شخص پر ٹھہری؟
وفا کے سلسلوں کی وہ ، مسلسل انتہا ٹھہرا



****************************

کون کہتا ہے رگوں میں ہے لہو
نین جھیلوں سے کبھی کا بہہ گیا




****************************


بول سکھی، کب تک چاہت کو ٹھکرائی گی؟
دل کہتا ہے پریت نہ کریو پچھتائے گی

وہ کہتا ہے بھیج دوں اس کوگہنے لینے
سوچ لے اتنے روز جدائی سہہ پائے گی؟

دیکھ سکھی، جانے والے کو روکوں کیسے؟
زلف کے جال کو کام میں آخر کب لائے گی

تنہائی کا قاتل ہالہ ٹوٹے کیسے؟
تنہائی سے بچنا ورنہ پچھتائے گی

چاند، ستارے آن سلامی دیں گے کس پل؟
جس پل گھونگٹ کو تو اوٹ سے شرمائے گی



****************************

کشمیر کے پس منظر پر کہی گئی نظم

"سدا اِک رت نہیں رہتی"



پرندے جاگ اٹھے ہیں
انہیں اب جال میں بے آب و دانہ ،
اِس طرح پابند کرنے کا ارادہ ترک کو ڈالو
انہیں بھی چاہیے آزاد سی کچھ سرمئی شامیں،
انہیں اجلے سویرے ، رت بہاروں کی بلاتی ہے
انہیں بھی کچے آنگن کی وہ مٹی یاد آتی ہے
انہیں خوشبو بھرے سندیسے بھاتے ہیں گلابوں کے
انہیں بھی یاد آتے ہیں حوالے کچھ کتابوں کے
پرندے جاگ اٹھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو اِن کے آشیاں تھے سبز پیڑوں پر ،
سسکتے بین کرتے ہیں
بہت بے چین کرتے ہیں
جو تتلی کے پروں سے بڑھ نازک خواب تھے ان کے ،
وہ انگاروں میں جلتے ہیں
وہ سب شعلوں میں پلتے ہیں
مگر اب ان کی بیداری کا موسم ہے
کہ یہ جو سرخ آندھی ہے ،
فقط اِک ریت کی گرتی ہوئی دیوار جیسی ہے
ہمیشہ ہجر کی زنجیر پیروں میں نہیں بجتی
ہمیشہ وصل کی تحریر آنکھوں میں نہیں جلتی
ہمیشہ پھولوں سے آکر ہوا خوشبو نہیں کہتی
سدا اِک رت نہیں رہتی
نہیں رہتی ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں رہتی


****************************

دل میں درد محبت کیسے بوتی رہتی ہے؟
جیسی پلکوں بیچ سدا سے جوتی رہتی ہے

اس نے پوچھا، کیا لکھا ہے ہاتھ کی ریکھا میں؟
میں نے کہا، اپنی قسمت ہے ، سوتی رہتی ہے

بولو کس نے ترکِ محبت کی بنیاد رکھی ؟
موسم کی تبدیلی ہے یہ ہوتی رہتی ہے

روتے روتے ہنس دینے میں آخر راز ہے کیا؟
غم میں راحت کی آمیزش ہوتی رہتی ہے

پلکوں سے اشکوں کی رفاقت آخر ٹھہری کیوں؟
بدلی سے بھی پوچھو نا کیوں روتی رہتی ہے


****************************

ہمارے دیس کی حالت نہ پوچھو
وہ ماں، جس کا کوئی بیٹا نہیں ہے


****************************

کہا اس نے کہ تم تعبیر ہو اور خواب سا ہوں میں
ہو تم بے خواب مدت سے ، ازل سے جاگتا ہوں میں

جو پوچھا دل کا سودا کب کیا ، کیسے کیا تم نے؟
وہ بولا ایک پل ٹھہرو یہی تو سوچتا ہوں میں

جو میں نے دَشت میں جاکر پکارا ، ہے خدا کوئی؟
تو ہر ذرّہ پکار اٹھا کہ اس کو جانتا ہوں میں

بھلا اس در پہ جاکر کس لئیے خالی پلٹ آئے؟
کہا، منزل کو چھو کر بھی لگا اِک راستہ ہوں میں

ابھی سوچا ہی تھا ڈھونڈوں افق کے پار کا رستہ
تو دل بولا، مِرا سوچو، کبھی کا لاپتہ ہوں میں

ہوا بولی سمندر سے، تِرا بھی کوئی بچھڑا ہے ؟
کہا ، جاجا کے ساحل پر اسی کو ڈھونڈتا ہوں میں




****************************

کوئی پوچھے کہ ہے کیا تم سے تعلق میرا
اس کو بتلا دو، جو آنکھوں کا ہے بینائی سے


****************************


کہو، تم کیوں جھجکتے ہو ؟
کہا، خود جان سکتے ہو

کہو، یہ درد کیسا ہے ؟
کہا، احساس رکھتے ہو

بھلا کیا دل کے اندر ہے؟
کہا، تم ہی دھڑکتے ہو

محبت کس کو کہتے ہیں؟
کہا، کیا زہر چکھتے ہو

کہا، محفوظ رکھے رب
کہا، بیدرد لگتے ہو

بھلا دل گم ہوا کب سے؟
کہا، جب سے بھٹکتے ہو

کہو، شمعیں جلیں کیسے ؟
کہا، پروانہ بنتے ہو؟

کہو، اب کیا رہا باقی؟
کہا، پھر کس سے ڈرتے ہو؟

کہا، وہ بھول سکتا ہو؟
کہا، کیا بات کرتے ہو؟

کہا، منزل مقابل ہے؟
کہا، پھر کیوں بھٹکتے ہو؟



****************************

کرکے برباد یہ پوچھا اس نے
تیرے خوابوں کا نگر کیسا تھا؟



****************************


کیوں ساجن کی آس نہیں ہے؟
اس کو مِرا احساس نہیں ہے

کیا ہے ہجر ، وچھوڑا ، فرقت؟
عشق، مجھے تو راس نہیں ہے

دھڑکن دل سے روٹھ گئی کیوں؟
کلیوں میں جو باس نہیں ہے

شبنم سی ہے کیوں پھولوں پر؟
آس بعید ہے ، پاس نہیں ہے

کیا ساجن واپس آئے گا؟
اب آنکھوں کو پیاس نہیں ہے


****************************

بچھڑتے وقت اس نے مجھ سے پوچھا
کبھی آکاش اور دھرتی ملے ہیں؟


****************************


بولو ہیں رنگ کتنے زمانے کے اور بھی
اس نے کہا ہیں بھید بتانے کے اور بھی

بولا، تمھارے دل میں محبت نے گھر کیا؟
میں نے کہا ہیں روگ لگانے کےاور بھی

میں نے کہا، وفا کی کبھی داستاں سنی؟
بولا، ہیں قصے سننے سنانے کے اور بھی

اظہار سے بلند ہے، میں نے بتایا عشق
بولا، مزے ہیں اِس کو جتانے کے اور بھی

بتلایا، راہِ عشق ہے دشوار، سوچ لو !
کہنے لگا ہیں راستے آنے کے اور بھی



****************************


(مکالماتی نظم)

بھلا دیا نا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟


اداس رت میں ،
لہو کی بوندوں میں ،
بس اداسی ہی جاگتی ہے
کہیں پڑھا تھا کہ پھر سنا تھا
تو یوں بھی ہوتا ہے یہ اداسی ،
تمام یادوں کی نرم و نازک سی کونپلوں کو ،
کبھی اچانک ہی نوچ لیتی ہے ،
بے خیالی میں، بے خودی میں
سنو یہ دھڑکا لگا ہے من کو ،
نہ ایسا ہو کہ تم ایسی رت میں ہمیں بھلا دو
یہی تو تم سے کہا تھا جاناں !
وہی ہوا ناں۔ ۔ ۔ ۔بھلا دیا نا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟



****************************

وہ بعد مدت ملا تو پوچھا، اداس کیوں ہو؟
کہا، جو شعلوں میں گِھر گیا تھا جلا تو ہو گا



****************************


غیر کے ہات میں ہات ہمارا؟
وہم تمھارا ہو سکتا ہے

کیوں جاگے ہے شب بھر چندا؟
ہجر کا مارا ہو سکتا ہے

کیا چمکے پلکوں میں پل پل ؟
ٹوٹا تارا ہو سکتا ہے

کون وفا کی دولت مانگے؟
دل بے چارا ہو سکتا ہے

کیسے ساگر بیچ وہ ڈوبا ؟
دور کنارہ ہو سکتا ہے

بولو کیا ہے بند آنکھوں میں؟
خواب تمھارا ہو سکتا ہے

پوچھو ہو تم پیار کی بابت؟
جھوٹا لارا ہو سکتا ہے

تم نے ہمیں ہے چاند پکارا؟
استعارہ ہو سکتا ہے



****************************


تو دل میں کیا تھا تمھارے ،ساجن اگر نہیں تھا؟
بتایا، خالی تھا سیپ جس میں گہر نہیں تھا

ذرا بتاؤ بھٹکتے رہنے کی ٹھان لی کیوں؟
جواب آیا، وہ آرزو کا نگر نہیں تھا

جو پوچھا، اس نے پلٹ کے دیکھا تھا جاتے لمحے؟
بتایا، ایسا بھی آنسوؤں میں اثر نہیں تھا

بتاؤ ، تم نے شکست دل کی قبول کیوں کی؟
جواب آیا، تھا مان جس پر وہ سر نہیں تھا

نہیں تھا تم سے جو پیار اس کو، تو کیا تھا آخر؟
جواب آیا، تھا پیار لیکن، امر نہیں تھا

ہے یاد تم نے تو اس کو اپنا کہا تھا اِک دن؟
سنو، یقیناً کہا تھا اپنا، مگر نہیں تھا

بتاؤ، منزل کے پاس آکر ، پلٹ گئے کیوں؟
جواب آیا کہ اس گلی میں وہ گھر نہیں تھا


****************************


یہ
 رتجگوں کی سیہ بھیڑ آکے پوچھتی ہے
جگا گیا تجھے نیندوں سے خوابگر کیونکر ؟


****************************


سنو، وہ جب ستاتا ہے
کہا، دل ڈوب جاتا ہے

کہا، دل ڈوبتا ہے کب؟
بتایا، جب ستاتا ہے

کہو، کب پھول کھلتے ہیں؟
کہا، جب مسکراتا ہے

دھڑکتا ہے کہو دل کب؟
کہا، جب پاس آتا ہے

کہو، دل میں ہے کیا اس کے؟
کہا، وہ کب بتاتا ہے

سنو، برہم سا ہے شاید؟
کہا، یونہی بناتا ہے

کہا، کچھ تو ہوا گا؟
کہا، وہ آزماتا ہے

بری شے عشق ہے کیونکر ؟
کہا، شب بھر جگاتا ہے

کہو، وہ بزم کیسی تھی؟
کہا، وہ کب بلاتا ہے

کہو، اس سے بچھڑنے کی؟
بچھڑنا کس کو بھاتا ہے؟

کہو، ملنے کی خواہش ہے؟
کہا، بیدرد ناتہ ہے

بتاؤ راکھ میں ہے کیا؟
ستارہ جھلملاتا ہے

لرز جاتی ہیں کب پلکیں؟
نظر وہ جب جماتا ہے

ٹھہر جاتی ہے دھڑکن کب؟
نظر سے جب گراتا ہے


****************************


کہو تم نے کبھی خوابوں کے رنگوں کو چرایا ہے؟
کہا، ہاں جب ہواؤں پر کوئی چہرہ بنایا ہے

کہو، یہ کیوں لگا جیسے ہوائیں بین کرتی ہیں؟
کہا، پت جھڑ کے پتوں نے کہیں نوحہ سنایا ہے

کہو، یہ کیوں لگا چاروں طرف اِک ہو کا عالم ہے؟
کہا، جب درد نے دھڑکن سے مل کر گیت گایا ہے

کہو، یہ کب لگا اب ریت سی چبھتی ہے آنکھوں میں؟
کہا، جب پیاس کو صحرا ؤں کے ہونٹوں پہ پایا ہے

کہو، کیسے لگا اِک زرد آندھی آنے والی ہے؟
کہا، جب پھول شاخوں پر کہیں بھی مسکرایا ہے

کہو، کب سے نہیں شکوہ اجڑنے کا کوئی تم کو؟
کہا، جب بارشوں نے میری آنکھوں کو بسایا ہے

کہو، کیسے لگا طوفان کوئی آنے والا ہے؟
کہا، ساحل پہ جاکر ریت کا جب گھر بنایا ہے


****************************


بولو، بھیگی رت میں کوئل کیوں روئے ہے؟
رو کر نینوں کے سب زخموں کو دھوئے ہے

کیا کہتی ہے اَن ہونی سے بولو ہونی؟
جو ہونا ہے آخرکار وہی ہوئے ہے

کیوں اگتی ہیں من میں غم کی فصلیں بولو؟
کہتے ہیں کاٹے گا وہ ہی جو بوئے ہے

پلکوں بیچ سے نیند چرالی کس نے بولو؟
جاگتی آنکھوں سے بھی اکثر جو سوئے ہے

کیوں ہے وصل کی خوشبو سے وحشت سی من کو؟
جس کی خواہش ہو بالآخر وہ کھوئے ہے


**************************** 


اس نے کہا ، کیا چپ چپ رہنا اچھا لگتا ہے؟
میں نے کہا، ہاں کچھ ناں کہنا اچھا لگتا ہے

اس نے کہا، ہنستی آنکھوں میں جگنو ہوتے ہیں
میں نے کہا، اشکوں کا بہنا اچھا لگتا ہے

اس نے کہا، کیا ہجر کے تم مفہوم سے واقف ہو؟
میں نے کہا، یہ درد ہے ، سہنا اچھا لگتا ہے

اس نے کہا، کیوں تم چندا کو غور سے تکتے ہو؟
میں نے کہا، یہ غم کا ہے گہنا ، اچھا لگتا ہے

****************************

(مکالماتی نظم)

مگر اتنا نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



کہو، احساس ہوتا ہے ،
بچھڑے کا ، بکھرنے کا، اجڑنے کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟
اگر ایسا نہیں تو کس لئیے بےچین ہوتے ہو اتنے ؟
جواب آیا ،
سنو ، اقرار ہے مجھ کو ، مجھے احساس ہوتا ہے،
مگر اتنا نہیں ہوتا
یہ دل ہر پل بہت بیکل ، بہت مضطر،
بہت بیتاب ہوتا ہے
مگر اتنا نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
****************************

“ اختتام “

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets