Thursday 27 September 2012

مجھے اب خواب سے تعبیر کر ڈالو



کئی برسوں سے جس پل کو 
میں دل کی جھیل کی تہہ میں
سلا کے بھول بیٹھی تھی

وہی پل جاگ اٹھا تو، کنول بن کر چمک اٹھا
میں چونک اٹھی کہ یہ سب کس طرح سے ہوگیا یک دم
وہ پل جاگا تو جیسے خون کی ساری ہی شریانیں
کسی نے کھینچ کر رکھ دیں

لگا پانی کا رستہ بھول کر مچھلی نے گویا چن لیا صحرا
بغاوت کا ارادہ کرلیا سانسوں کے طوفاں نے
یہ دھڑکن گنگنا اٹھی

لگا پیروں سے لے کے سر تلک شعلے بھڑک اٹھے
لہو کی ساری بوندوں نے سلگنے کی قسم کھا لی

پگھلتا ہی گیا جذبوں کا سونا موم کی صورت
ان آنکھوں میں محبت کے ہزاروں دیپ جل اٹھے
مری چندھیا گئی پلکیں
تھکا ماندہ نظر آیا فلک کا چاند آخرکار
ستارے پڑگئے مدھم

سنو، اک بات مانو گے؟

تم اپنی ساری چاہت کو مری جاگیر کر ڈالو
وفا ہوں میں مجھے پیروں کی تم زنجیر کر ڈالو
مجھے اب خواب سے تعبیر کر ڈالو



No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets