Thursday 20 September 2012

میرے خوشبوؤں سے ہیں سلسلے میری نسبتیں ہیں گلاب سے



یہ اکیلےپن کی اداسیاں، یہ فراق لمحے عذاب سے
کبھی دشتِ دل پہ آ رکیں تیری چاہتوں کے سحاب سے

میں ہوں تجھ کو جاں سے عزیزتر میں یہ کیسے مان لوں اجنبی
تیری بات لگتی ہے وہم سی تیرے لفظ لگتے ہیں خواب سے

یہ جو میرا رنگ و روپ ہے یونہی بے سبب نہیں دوستو
میرے خوشبوؤں سے ہیں سلسلے میری نسبتیں ہیں گلاب سے

اسے جیتنا ہے تو ہمنشیں یونہی گفتگو سے نہ کام لے
کوئی چاند لاکے جبیں پہ رکھ، لا کوئی گہر تہہِ آب سے

وہی معتبر ہے میرے لئے، وہ جو حاصلِ دل و جان ہے
وہ جو باب تم نے چرا لیا میری زندگی کی کتاب سے

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets