Thursday 18 October 2012

تیرہ راتوں میں بھلا کیسے جیا جاتا ھے



چھین کر خواب مرے مری طلب پوچھتے ھیں
رات بھر نیند نہ آنے کا سبب پوچھتے ھیں

بارشیں ‌آنکھ کی معیوب نہ ہوتی ھوں کہیں
عشق کا چل کسی اجڑے سے ادب پوچھتے ھیں

تیرہ راتوں میں بھلا کیسے جیا جاتا ھے
میرے قاتل بھی تو اب مجھ سے یہ ڈھب پوچھتے ھیں

اپنے شجرے کو بھی ہمراہ لئے چل رسماً"
جنگ سے قبل یہاں نام و نسب پوچھتے ھیں

چارہ سازوں نے تو اب سمت بدل لی عامر
آو بازار میں‌بکتے ھوئے لب پوچھتے ھیں

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets