Friday 30 November 2012

گر فرصت ملے تو۔ مجھ سے ملنا۔


سُنا ہے تم بہت مصروف ہو
مصروف بھی اتنے کہ فرصت تم سے ملنے کو ترستی ہے
سُنو !
مصروفیت کے دائرے کو پاٹ کر
فرصت سے ملنے کا کبھی موقع ملے تو
سب سے پہلے خود سے ملنا
پھر فراغت کا کوئی لمحہ بچے تو
غم کے نم آلود رستوں پر کہیں سے دھوپ لا رکھنا
بھٹکتی شام سے پُروا کے دھیمے گیت سننا
آہٹوں کی تتلیوں کے رنگ چننا
بادلوں کی دھند میں چھپتے ہوئے منظر سے تصویریں بنانا
آئنہ رو ساعتوں کے عکس آنکھوں میں سجانا
وقت کے ساحل پہ گیلی ریت سے اک گھر بنانا
ہاتھ کے محراب سے دل کے دیئے کی تھرتھراتی لو کو بجھنے نہ دینا
پیڑوں کے دامن سے لپٹی ہوئی چھاؤں میں مہکی ہوئی باتیں چھپانا
اور پرندوں کی چہک سے نظم کے مصرے بنانا
یا پروں کی اوٹ سے چھنتی ہوئی کرنو ں سے
یادوں کی دھنک بھرنا
گر نہیں تو
کاسنی پھولوں کی صورت من کے سُونے پن میں کھِلنا
پھر بھی گر فرصت ملے تو۔
مجھ سے ملنا۔


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets