Tuesday 27 November 2012

جس گھڑی قلب ہوا تھا میرا پارہ پارہ


دشت میں کیوں دلِ بے تاب لیے پھرتا ہے
کس لیے دیدہ بے خواب لیے پھرتا ہے


آپ ہی اپنا وجود اس میں ڈبو کر جیسے
اپنی ہستی ہی میں گرداب لیے پھرتا ہے


بانٹتا جاتا ہے اشکوں کے خزانے ہر سُو
آنکھ میں گوہرِ نایاب لیے پھرتا ہے


زندگی جاگتے رہنے کی سزا ہو جیسے
وہ سزاؤں کے بھی آداب لیے پھرتا ہے


بیٹھنے دیتا نہیں مجھ کو کنارے پہ کبھی
مجھ میں پوشیدہ یوں سیلاب لیے پھرتا ہے


جس گھڑی قلب ہوا تھا میرا پارہ پارہ
اسی پل کو دلِ سیماب لیے پھرتا ہے


کون کرتا ہے رگِ جاں میں لہُو کو گردش
کون سانسوں میں یہ زہراب لیے پھرتا ہے


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets