پسِ گردِ جادۂ درد نور کا قافلہ بھی تو دیکھتے
جو دلوں سے ہو کے گزر رہا ہے وہ راستہ بھی تو دیکھتے

یہ دھواں جو ہے یہ کہاں کا ہے وہ جوآگ تھی وہ  کہاں کی تھی
کبھی راویانِ خبر زدہ پسِ واقعہ بھی تو دیکھتے

یہ گلو گرفتہ و بستۂ رسنِ جفا، مرے ہم قلم
کبھی جابروں کے دلوں میں خوفِ مکالمہ بھی تو دیکھتے

یہ جو پتھروں میں چھپی ہوئی ہے شبیہ یہ بھی کمال ہے
وہ جو آئینے میں ہُمک رہا ہے وہ معجزہ بھی تو دیکھتے

جو ہوا کے رُخ پہ کھلے ہوئے ہیں وہ بادباں تو نظر میں ہیں
وہ جو موجِ خوں سے سے الجھ رہا ہے وہ حوصلہ بھی تو دیکھتے

یہ جو آبِ زر سے رقم ہوئی ہے یہ داستاں بھی ہے مستند
وہ جو خونِ دل سے لکھا گیا ہے وہ حاشیہ بھی تو دیکھتے

میں تو خاک تھا کسی چشمِ ناز میں آگیا ہوں تو مِہر ہوں
مرے مہرباں کبھی اک نظر مرا سلسلہ بھی تو دیکھتے