Friday 30 November 2012

رشتۂِ جاں تھا کبھی جس کا خیال























سفر ِمنزل ِشب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں

اوّلیں قرب کی سرشاری میں
کتنے ارماں تھے جو اب یاد نہیں

دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں

وہ ستارہ تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
ایک صورت تھی عجب یاد نہیں

کیسی ویراں ہے گزر گاہِ خیال
جب سے وہ عارض و لب یاد نہیں

بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں

ایسا الجھا ہوں غم ِدنیا میں
ایک بھی خواب طرب یاد نہیں

رشتۂِ جاں تھا کبھی جس کا خیال
اس کی صورت بھی تو اب یاد نہیں

یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں

یاد ہے سیر ِچراغاں ناصر
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets