Saturday 22 December 2012

اس شہرِ خوش جمال کو کس کی لگی ہے آہ


آنکھوں سے کون میری، میرے خواب لے گیا
چشمِ صدف سے گوہرِ نایاب لے گیا

اس شہرِ خوش جمال کو کس کی لگی ہے آہ
کس دل زدہ کا گریہءِ خوں ناب لے گیا

کچھ نا خدا کے فیض سے ساحل بھی دور تھا
کچھ قسمتوں کے پھیر میں گرداب لے گیا

واں شہر ڈوبتے ہیں ، ادھر بحث کہ انہیں
خم لے گیا ہے یا خمِ محراب لے گیا

کچھ کھوئی کھوئی آنکھیں بھی موجوں کے ساتھ تھیں
شاید انہیں بہا کےکوئی خواب لے گیا

طوفانِ ابر باد میں سب گیت کھو گئے
جھونکا ہوا کا ہاتھ سے مضراب لے گیا

غیروں کی دشمنی نے نہ مارا، مگر ہمیں
اپنوں کے التفات کا زہراب لے گیا

اےآنکھ! اب تو خواب کی دنیا سے لوٹ آ
“مژگاں تو کھول ! شہر کو سیلاب لے گیا”


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets