Monday 17 December 2012

جیسے سب رنگ دھنک کے مجھے چھونے آئے



کچے زخموں سے بدن سجنے لگے راتوں کے
سبز تحفے مجھے آنے لگے برساتوں کے

جیسے سب رنگ دھنک کے مجھے چھونے آئے
عکس لہراتے ہیں آنکھوں میں مری ‘ ساتوں کے

بارشیں آئیں اور آنے لگے خوش رنگ عذاب
جیسے صندوقچے کُھلنے لگے سوغاتوں کے

چُھو کے گُزری تھی ذراجسم کو بارش کی ہَوا
آنچ دینے لگے ملبوس جواں راتوں کے

پہروں کی باتیں وہ ہری بیلوں کے سائے سائے
واقعے خوب ہُوئے ایسی ملاقاتوں کے

قریہ جاں میں کہاں اب وہ سخن کے موسم
سوچ چمکاتی رہے رنگ گئی باتوں کے

کِن لکیروں کی نظر سے ترا رستہ دیکھوں
نقش معدوم ہُوئے جاتے ہیں ان ہاتھوں کے

تُو مسیحا ہے،بدن تک ہے تری چارہ گری
تیرے امکاں میں کہاں زخم کڑوی باتوں کے

پھر رہے ہیں مرے اطراف میں بے چہرہ وجود
اِن کا کیا نام ہے ‘یہ لوگ ہیں کِن ذاتوں کے

آسمانوں میں وہ مصروف بہت ہے یا پھر
بانجھ ہونے لگے الفاظ مناجاتوں کے

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets