Saturday 22 December 2012

ابر ِباراں کے ارادے بھی پُر اسرار سے ہیں


ابر ِباراں کے ارادے بھی پُر اسرار سے ہیں
آج برسے گی گھٹا کھل کے یہ آثار سے ہیں

لوگ آتے ہیں ٹھہرتے ہیں چلے جاتے ہیں
اپنے حالات بھی اجڑے ہوئے بازار سے ہیں

وہ اگر چاہے تو دے شرفِ ملاقات مجھے
سب امیدیں میری وابستہ میرے یار سے ہیں

یہ ضروری تو نہیں جیت مسرّت بخشے
ایسی خوشیاں بھی ہیں، ملتی جو فقط ہار سے ہیں

سر بکف ہو کے تیرے کوچے کو چل نکلا ہوں
عزم تو پکّے ہیں مگر راستے دشوار سے ہیں


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets