Wednesday 19 December 2012

تمہارا ہجر شدّت سے مرے دل کو مسلتا ھے مجھے تم یاد آتے ھو



تمہارا پیار چھپ چھپ کر کئی چہرے بدلتا ھے مجھے تم یاد آتے ھو
تمہارا ہجر شدّت سے مرے دل کو مسلتا ھے مجھے تم یاد آتے ھو

سمندر آشنا آنکھوں میں صحرا آن بستے ہیں تمہیں جب بھول جاتا ھوں
پھر ان صحراؤں میں ایک خواب کا چشمہ نکلتا ھے مجھے تم یاد آتے ھو

میں اپنے ہاتھ سے تیری سنہری یاد کی پلکیں سجاتا ھوں خیالوں میں
خیالوں میں تیرا موسم کئی پہلو بدلتا ھے مجھے تم یاد آتے ھو

تری پرچھائیاں ہر سو مری تنہائیوں کا رقص کرتی ہیں اداسی پر
میرے سینے میں ایک بےچین سا بچہ مچلتا ھے مجھے تم یاد آتے ھو

کبھی کوئی ستارہ آنکھ سے ہوتا ہوا بجھتا ہےاکے گود میں گر کر
کبھی کوئی بہت ہی دور ابھرتا اور ڈھلتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو

کسی فٹ پاتھ پر‘ بازار میں‘ باغات میں یا پھر کسی دریا کنارے پر
بہت خوش ھو کے جب کوئی کسی کے ساتھ چلتا ھے مجھے تم یاد آتے ھو

میں سارادن کوئی سنگی مجسمہ بن کے رہتا ھوں مگر جب شام ڈھلتی ھے
میرے دل کی جگہ پر کوئی پتھر سا پگھلتا ھے مجھے تم یاد آتے ھو

تصور میں تمہارے سنگ بیتی بارشیں اکثر تمہیں آواز دیتی ہیں
نگاہوں میں تمہاری دھوپ کا ایک دیپ جلتا ھے مجھے تم یاد آتے ھو

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets