بسا ط جاں پہ عذاب اترتے ہیں کس طرح
شب و روز یہ عقاب اترتے ہیں کس طرح
کبھی عشق ھو تو پتہ چلے
یہ جو روگ ہیں چھپے ھوۓ ھیہں جسم و جاں میں
تو یہ کس لۓ
یہ جو اضطراب رچا ھوا ہے وجود میں
تو یہ کیوں بھلا
یہ جو سنگ سا آگرا ہے وجود میں
تو یہ کس لۓ
یہ جو دل میں درد چھڑا ہے لطیف سا
تو یہ کب سے ہے
یہ جو پتلیوں میں عکس ہے کوئ خفیف سا
سو یہ کب سے ہے
یہ جو لوگ پیچھے پڑے ہوے ھیں فضول میں
انھیں کیا پتا انھیں کیا خبر
کسی راہ کے کسی موڑ پر خود انھیں ذرا
کبھی عشق ہو تو پتہ چلے