خوابِ کِمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے 
اے گلِ صبح! تری باس کہاں رکھیں گے

اے مہِ گنبدِ گرداں تو ستارے نہ گرا 
ہم زمیں زار تری آس کہاں رکھیں گے

خود ہی روئیں گے ہمیں پڑھ کے زمانے والے 
ہم بھلا رنج و الم پاس کہاں رکھیں گے

سرِ تسلیم ہے خم‘ کچھ نہ کہیں گے‘ لیکن 
یہ قلم اور یہ قرطاس کہاں رکھیں گے

پیلے پھولوں سے لدے رہتے ہیں جو راہوں میں
ہم وہ چاہت کے املتاس کہاں رکھیں گے

ٹھیک ہے‘ دل کو سنبھالیں گے یقیناً لیکن 
خود سے لپٹی ہے جو اک یاس کہاں رکھیں گے

قیمتِ حرف و معانی ہے سخن فہمی پر 
سعد ہم گوہر و الماس کہاں رکھیں گے