جب سے وہ آیا ہے میرے دھیان میں
ذہن و دل ہیں عالمِ وجدان میں
خود بخود خوابوں کے در کھلنے لگے
کون آیا ہے مرے امکان میں
ہم نے تیرا ذکر چھیڑا اور پھر
روشنی سی ہو گئی دالان میں
وہ گیا تو روح کو بھی لے گیا
بات کیا تھی دل کے اس مہمان میں
حسن پردے سے نکل کر اور بھی
ڈال دیتا ہے خلل ایمان میں
جب کیا گھاٹے کا ہی سودا کیا
عمر بھر ہم تو رہے نقصان میں
چند سپنے ہیں مرے ساتھی بقا
اور کیا رکھا ہے اب سامان میں