سنو اب کے
برس خود سے ملی میں جب
وہی آنکهیں
وہی چہرہ
وہی پلکیں
وہی سوچیں
وہی راہیں
مگر کچھ اجنبی جیسا
کہ لہجہ بے وفا سا تھا
کہ مجھ سے بھی خفا سا تھا
دسمبر کی ہوا جیسا
جدائی کی سزا جیسا