Tuesday 31 December 2013

اک پل دل کو میرے اس کے بنا آرام نہیں


کافر عشق ہوں میں بندہ اسلام نہیں
بت پرستی کےسوا اور مجھے کام نہیں

عشق میں پوجتا ہوں قبلہ و کعبہ اپنا
اک پل دل کو میرے اس کے بنا آرام نہیں

ڈھونڈتا ہے تو کدھر یار کو میرے ایماہ
منزلش در دلِ ما ہست لبِ بام نہیں

بوالہوس عشق کو تو خانہ خالہ مت بوجھ
اُسکا آغاز تو آسان ہے پر انجام نہیں

پھانسنے کو دلِ عشاق کے اُلفت بس ہے
گہیر لینے کو یہ تسخیر کم از دام نہیں

کام ہو جائے تمام اُسکا پڑی جس پہ نگاہ
کشتہ چشم کو پھر حاجتِ صمصام نہیں

ابر ہے جام ہے مینا ہے می گلگون ہے
ہے سب اسبابِ طرب ساقی گلفام نہیں

ہائے رے ہائے چلی جاتی ہے یوں فصل بہار
کیا کروں بس نہیں اپنا وہ صنم رام نہیں

جان چلی جاتی ہے چلی دیکھ کے یہ موسم گُل
ہجر و فرقت کا میری جان پہ ہنگام نہیں

دل کے لینے ہی تلک مہر کی تہی ہم پہ نگاہ
پھر جو دیکھا تو بجز غصہ و دشنام نہیں

رات دن غم سے ترے ہجر کے لڑتا ہے نیاز
یہ دل آزاری میری جان بھلا کام نہیں


بس اک داغِ سجدة مری کائنات

وہ چاند وہ سورج وہ شب و روز کدھر ہیں

Monday 30 December 2013

میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر


کبھی جو ٹوٹ کے برسا دسمبر !
لگا اپنا ، بہت اپنا دسمبر !

گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر !

بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا
تمھارے وصل کا پیاسا دسمبر !

وہ کب بچھڑا نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر !

یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر !

ملن کے چند سکّے ڈال اس میں
میرے ہاتھوں میں ہے کاسہ دسمبر !

جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
میری تنہائ اور میرا دسمبر

کہیں سہانے پل یہ دسمبر کے بیت نہ جائیں



ٹھہرؤ!
کچھ پل بھلا کر اُن پُرانی باتوں کو
جو دُوری کا سبب تھیں
آؤ! دسمبر کی دُھوپ میں بیٹھ کر
مل جل کر باتیں کریں
کیا اچھا کیا بُرا؟
جنوری کی دہلیز پر
کچھ رنگ زیست کے بکھیریں
فروری میں ان رنگوں کو یکجا ہم کریں
مارچ اپریل میں پُر کیف ہواؤں اور بہاروں سے
صبح و شام ہم کریں
مئی جون کی جُھلستی اور لو دیتی گرمی کو
امن و سلامتی کے پنکھوں سے
کچھ سرد ہم کریں
کیا اچھا کیا بُرا؟
اس بات کو بُھول کر
جولائی اگست میں محبت کے گیت الاپ کر
ساون کی بھیگی رُتوں کا
مسرور و مگن ہو کر استقبال ہم کریں
ستمبر اکتوبر کی خوش کُن شاموں کو
اک دوجے کے سنگ خوش نما ہم کریں
اُف‘ ہائے اور سی میں خوش گزارا ہم کریں

کیا اچھا کیا بُرا؟
چھوڑو ان رسمی باتوں کو
آؤ!
اپنی چاہت کا اقرار جم جم کے ہم کریں
کہیں سہانے پل یہ
دسمبر کے بیت نہ جائیں

درد محبت کا بھرم

Sunday 29 December 2013

روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تیری آنکھیں

Ab K Baras December Ki Adaayein Bhi Tujh Si Thehriin


اب کے برس دسمبر کی ادائیں بھی تجھ سی ٹھہریں
وفائیں بارشوں سی ناپید، جفائیں سردیوں سی ٹھہریں

Ab K Baras December Ki Adaayein Bhi Tujh Si Thehriin
Wafayein Baarishon Si Na-Paid, Jafayein Sardiyon Si Thehriin

دسمبر کی سرد اداس راتوں میں



دسمبر کی سرد اداس راتوں میں
کبھی دامن اگر نہ چھڑا سکو
زمانے کی خود غرض محبتوں سے
اور دسمبر کی سرد اداس راتوں میں
چاند اپنی چاندنی کی بانہوں میں
بانہیں ڈالے
تیری بالکنی میں اترے
تو بیٹھ کر تنہائی میں
کبھی غور کرنا
تمہیں

میرے ادھورے افسانوں
اور ٹوٹے پھوٹے جملوں میں
کھوئے کھوئے سے لفظوں میں
اک بے زباں محبت کا اظہار ملے گا

دسمبر کی بھیگی شاموں میں


دسمبر کی بھیگی شاموں میں
کالی لمبی راتوں میں
تیری یاد ہمراہ ہو تو
راتیں سفر ہو جائیں
ہم تیری یادوں میں کھو جائیں
تو یہ دسمبر کیا
کئ دسمبر گزر جائیں

دسمبر کی سرد لمبی راتیں




دسمبر کی
سرد لمبی راتیں
اور
دل کو گرماتی تمھاری یادیں
آتی ہیں تو
جانا بھول جاتی ہیں
میرے دل کی ایک خواہش ہے
بالکل ایسے ہی کسی شام
تم بھی چپکے سے
میرے پاس آؤ
اور پھر جانا بھول جاؤ

کوئی بچھڑا ہوا ساتھی پھر سے یاد آئے گا

Saturday 28 December 2013

دسمبر کی اُداس رت


دسمبر کی اُداس رت لوٹ آئی ہے
نمی آنکھوں میں لئے
اور کہہ رہی ہے مجھ سے
کہ
تیرے واسطے اب کی بار بھی
میرے دامن میں
!!!صرف تنہائی ہے

محبت کے دسمبر میں




محبت کے دسمبر میں
اچانک جیسے تپتا جون آیا ہے
تمہارا خط نہیں آیا نہ کوئی فون آیا ہے
تو کیا تم کھو گئے اجنبی چہروں کے جنگل میں
مسافر مل گیا کوئی ، کسی منزل کسی پل میں
عقیدت کے سنہرے پھول
چپکے سے کسی نے باندھ ڈالے آ کے آنچل میں
یکایک موڑ کوئی آگیا چاہت کی منزل میں
خیال وعدہء برباد بھی تم کو نہیں آیا
تو کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں یاد بھی تم کو نہیں آیا ؟

December ki sard raaton men ik aatishdaan kay pass



December ki sard raaton men ik aatishdaan kay pass
Ghanton tanha bethna,bujhtay sharaaray dekhna
Jab kabhi fursat milay to gosha e tanhai men
Yaad e maazi kay puranay goshwaray dekhna

دسمبر کی سرد راتوں میں اک آتش داں کے پاس
گھنٹوں تنہا بیٹھنا، بجھتے شرارے دیکھنا
جب کبھی فرصت ملے تو گوشہ تنہائی میں
یاد ماضی کے پرانے گوشوارے دیکھنا


تجھ کو بُھولے تو دعا تک بُھولے


گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید
راہ میں سنگِ وفا تھا شاید

اِک ہتھیلی پہ دیا ہے اب تک
ایک سورج نہ بجھا تھا شاید

اس قدر تیز ہوا کے جھونکے
شاخ پر پھول کِھلا تھا شاید

لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
وہم سا دل کو ہُوا تھا شاید

خونِ دل میں تو ڈبویا تھا قلم
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید

تجھ کو بُھولے تو دعا تک بُھولے
اور وہی وقتِ دعا تھا شاید

موجہ ٴ رنگ بیاباں سے چلا
یا کوئی آبلہ پا تھا شاید

رُت کا ہر آن بدلتا لہجہ
ہم سے کچھ پوچھ رہا تھا شاید

کیوں ادا ؔ کوئی گریزاں لمحہ 
شعر سننے کو رُکا تھا شاید

انجام

Friday 20 December 2013

مجھ میں گم سم کیوں بیٹھے ہو

اک ادھوری سی ملاقات ہو پہلے جیسی

حاصل عمر

لہو کی حدت کو سرد کرتا رگوں میں جمتا یہ زرد پڑتا ملال کیا ھے ۔۔؟

آؤ جاناں ۔۔۔ تمہیں دکھاؤں
 
وہ خواب جاناں

جو میری آنکھیں سلگتے لمحوں میں دیکھتی ھیں 

یہ دیکھتی ھیں

سنہری شامیں بدن پہن کر تمہارے ہمراہ چل رہی ھیں 

جمیل صبحیں وصال اوڑھے تمہاری باھوں میں آگری ھیں 

یہ خواب کیا ھیں ۔۔۔

یہ دھند کیسی ۔۔؟

یہ میری آنکھوں کو کیا ھوا ھے ۔۔

یہ آنسوؤں کی نمی سی کیا ھے ۔۔؟

یہ خواب بہہ کر کہاں چلے ھیں

جو ان گنت بے شمار راتوں کے رتجگوں سے کشید کرکے سمبھال 

رکھے تھے

کیا ھوۓ ھیں 
؟
لہو کی حدت کو سرد کرتا رگوں میں جمتا یہ زرد پڑتا ملال کیا ھے ۔۔؟
تو جا چکا ھے 

وہ کون ھوگا جو یاد رکھے 

میرے دکھوں کا حساب رکھے 

جو خاک اوڑھے کبھی ملوں تو 

بے آب گِل کو بھی آنسوؤں سے سراب رکھے 

میرے مقدر کی خاک پر جو 

بہار رت کا گلاب رکھے


Sunehri Shaamen


Sunehri Shaamen
Thitharti Raaten
Mehakti Coffee
Woh Bheeni Khushboo

Khamosh Kamra
Aatish Daan Sulagta
Mein Aur
Teri Yaadon Ki Khushboo

Haan Yehi December Hai
سنہری شامیں  
ٹھٹھرتی راتیں  
مہکتی کافی  
وہ بھینی خوشبو 
خاموش کمرا 
آتَش دان سلگتا  
میں اور 
تیری یادوں کی خوشبو  
ہاں یہی دسمبر ہے 

آخری خواہش

دسمبر لوٹ آیا ہے

ہم اس پر کچھ نہیں لکھیں گے

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets