Tuesday 22 April 2014

آوارہءِ شب روٹھ گئے تیری گلی سے


کب دل سے کوئی نقش مٹانے چلی آئے

دَر کھول کے اِک تازہ تحیّر کی خبر کا

چپُکے سے کسی غم کے بہانے چلی آئے

کہتے ہیں کہ اب بھی تری پھیلی ہوئی باہیں

اِک گوشۂ تنہائی میں سِمٹی ہوئیں اب تک

زنجیرِ مہ و سال میں لپٹی ہوئیں اب تک

اب اور کسی چشم پہ وَا تک نہیں ہوتیں

خُود اپنے ہی عالم سے جُدا تک نہیں ہوتیں

سُنتے ہیں کہ اب بھی ترے آنچل کی ہوا سے

اُلجھا ہوا رہتا ہے کسی یاد کا دامن

اب بھی تری آنکھوں سے غبارِ مہ و انجم

اُڑتا ہے کہیں ابرِ گریزاں کی طلب میں

اب بھی ترے ہونٹوں پہ محبت کا الاؤ

جلتا ہے پئے لمس کہیں حجلۂ شب میں !

وہ دن بھی عجب تھے کہ کسی لہر میں سب سے

کہتے ہوئے پھرتے تھے اِسی شہر میں سب سے

اُس آنکھ میں پھیلا ہوا کاجل بھی ہمارا

شانوں پہ مہکتی ہوئی وہ زلف ہماری

اور اُس سے ڈھلکتا ہوا آنچل بھی ہمارا

یہ دن بھی عجب ہیں کہ رگ و پے میں شب و روز

پھیلا ہوا اِک تازہ تغّیر کا فسُوں ہے

اب بھی اسی پابندئ آئین جنُوں میں

اپنا سرِ بازار وہی رقصِ جُنوں ہے

گزرا ہوا لمحہ بھی ہم آغوش تھا ہم سے

یہ پل جو گزرنے کو ہے، یہ پل بھی ہمارا

ہم آج کے بارے ہی میں خُوش فہم نہیں ہیں

جو تجھ کو یقیں آئے تو ہے کل بھی ہمارا

وحشت وہی، رشتہ بھی وہی دربدری سے

آوارہءِ شب روٹھ گئے تیری گلی سے


Kuch is ada say aaj woh pehlu nasheen rahay



Kuch is ada say aaj woh pehlu nasheen rahay
Jab tak hamaray pass rahay hum nhi rahay

کون کہتا ہے محبت کی زباں ہوتی ہے؟

میرے ہمسفر!

Friday 18 April 2014

دو موسموں کی ایک سی کیفیت



کبھی کبھی کوئی غم
کسی بہت دیرینہ دوست کا بخشا ہوا غم
جب دلِ ستم زدہ کو بے قرار کرتا ہے
تو آنکھیں
رِم جِھم رِم جِھم برسنے لگتی ہیں
کبھی کبھی کوئی خوشی
کسی اجنبی کی دی ہوئی خوشی
جب دلِ ستم زدہ کو قرار میں لاتی ہے
تو آنکھیں پھر بھی
رِم جِھم رِم جِھم برسنے لگتی ہیں

انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند


انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند
کیسی انوکھی بات رے

تن کے گھاؤ تو بھر گئے داتا 
من کا گھاؤ نہیں بھر پاتا
جی کا حال سمجھ نہیں آتا
کیسی انوکھی بات رے
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند

پیاس بُجھے کب اِک درشن میں
تن سُلگے بس ایک جلن میں
من بولے رکھ لوں نینن میں
کیسی انوکھی بات رے
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند

جس پہ نہ بِیتی وہ کب جانے
جَگ والے آئے سمجھانے
پاگل من کوئی بات نہ مانے
کیسی انوکھی بات رے
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند رے

آج غمگین نہیں حیران ہیں ہم

Chonki hoon to dekha keh woh hamrah nhi hai



Chonki hoon to dekha keh woh hamraah nhi hai
Uljhan men hoon kis baat pay,kis morr pay,kab say

چونکی ہوں تو دیکھا کہ وہ ہمراہ نہیں ہے
اُلجھن میں ہوں کس بات پہ، کس موڑ پہ، کب سے

Thursday 17 April 2014

برسوں کا تھما ساون


دیکھا جو تمہیں پھر سے

اِک یاد اُٹھی دل میں

کالی سی گھٹا بن کر

فریاد اُٹھی دل میں

شوریدہ ہواؤں نے

پھر ضبط سے ٹکر لی

آنکھوں نے دُہائی دی

رو لینے کو جی ترسا

برسوں کا تھما ساون

برسا تو بہت برسا

سنو دسمبر!


انا


لان میں بیٹھے 
کافی پیتے 
ٹوٹا پُھوٹا دیکھ کے اس کو 
میں نے کہا
مجھ کو تم پہ ترس آتا ہے
اس نے گُھور کے دیکھا مجھ کو 
اور یہ بولی 
عورت ذات پہ رحم کرنا
تم مردوں کی عادت ہے
اور مجھے ان سب مردوں سے 
جن کو مجھ پہ رحم آتا ہے 
نفرت ہے


آخری خواہش

Image

یہ زخم یہ مرہم

آج دل پہ کوئی زور چلتا نہیں

Image

تجھے عشق ہو خدا کرے

دو گھونٹ بھی ساقی سے مِل جائيں تو کافی ہيں


ہم عاشقِ فاسق تھے، ہم صوفئ صافی ہيں

پی ليں جو کہيں اب بھی درخورِ معافی ہيں



بيگار بھی ململ بھی گرمی ميں شب فرقت

کام آئيں گے جاڑے ميں فردِيں جو لحافی ہيں



عقلوں کو بنا دے گا، ديوانہ جمال ان کا

چھا جائيں گی ہوشوں پر آنکھيں وہ غلافی ہيں



ہم شُکرِ سِتم کرتے، کيوں شکوہ کيا ان سے 

آئينِ محبت کے شيوے يہ منافی ہيں



جوٹھی بھی گورا تھی، باقی بھی غنيمت ہے 

دو گھونٹ بھی ساقی سے مِل جائيں تو کافی ہيں



ہم ان کی جفا سے بھی راضی تھے مگر ناحق

اب ہو کے وہ خود نادِم سرگرمِ تلافی ہيں



جدت میں ہے لاثانی حسرت کی غزل خوانی

کیا طرفہ مطالب ہیں، کیا تازہ قوافی ہیں


Wednesday 16 April 2014

میری تنہائی میں مجھ سے گُفتگُو کرتا ہے کون



میری تنہائی میں مجھ سے گُفتگُو کرتا ہے کون

تُو نہیں ہوتا تو میری جُستجُو کرتا ہے کون 



کس کا خنجر ہے جو کر دیتا ہے سینے کو دو نِیم

پھر پشیمانی میں زخمِ دل رفُو کرتا ہے کون



اِس خرابے میں بگُولہ سی پِھرے ہے کس کی یاد

اِس دیارِ رفتگاں میں ہاؤ ہُو کرتا ہے کون



خوف کس کا ہے کہ اپنے آپ سے چُھپتا پِھروں

ناگہاں پھر مجھ کو میرے رُو برُو کرتا ہے کون



کون سا موسم چُرا لیتا ہے غُنچوں کی چٹک

نغمہ پیراؤں کو سُرمہ در گُلو کرتا ہے کون



کون پی جاتا ہے آخر مِرے حِصے کی شراب

میں نہیں ہوتا تو پھر خالی سبُو کرتا ہے کون



Tuesday 15 April 2014

امید یار نظر کا مزاج درد کا رنگ

ابھی محبت کا اسمِ اعظم لبوں پہ رہنے دے


وہ اجنبی اجنبی سے چہرے وہ خواب خیمے رواں دواں سے
بسے ہوئے ہیں ابھی نظر میں سبھی منظر دھواں دھواں سے

یہ عکسِ داغِ شکستِ پیماں، وہ رنگِ زخمِ خلوصِ یاراں
میں غمگساروں میں سوچتا ہوں کہ بات چھیڑوں کہاں کہاں سے

یہ سنگریزے عداوتوں کے، وہ آبگینے سخاوتوں کے
دلِ مسافر قبول کر لے، ملا ہے جو کچھ جہاں جہاں سے

بچھڑنے والے بچھڑ چلا تھا تو نسبتیں بھی گنوا کے جاتا
تیرے لئے شہر بھر میں اب بھی میں زخم کھاؤں زباں زباں سے

میری محبت کے واہموں سے پرے تھا تیرا وجود ورنہ
جہاں جہاں تیرا عکس ٹھہرا میں ہو کے آیا وہاں وہاں سے

تو ہم نفس ہے نہ ہم سفر ہے، کسے خبر ہے کہ تو کدھر ہے
میں دستکیں دے کے پوچھ بیٹھا، مکیں مکیں سے مکاں مکاں سے

ابھی محبت کا اسمِ اعظم لبوں پہ رہنے دے جانِ محسن
ابھی ہے چاہت نئی نئی سی، ابھی ہیں جذبے جواں جواں سے

اک ماتمي جگنو مري پلکوں پہ سجا تھا


آہٹ سي ہوئي تھي نہ کوئي برگ ہلا تھا
ميں خود ہي سر منزل شب چيخ پڑا

لمحوں کي فصيليں بھي مرے گرد کھڑي تھيں
ميں پھر بھي تجھے شہر ميں آوارہ لگا تھا

تونے جو پکارا ہے تو بول اٹھا ہوں، ورنہ
ميں فکر کي دہليز پہ چپ چاپ کھڑا تھا

پھيلي تھيں بھرے شہر ميں تنہائي کي باتيں
شايد کوئي ديوار کے پيچھے بھي کھڑا تھا

اب اس کے سوا ياد نہيں جشن ملاقات
اک ماتمي جگنو مري پلکوں پہ سجا تھا

يا بارش سنگ اب کے مسلسل نہ ہوئي تھي
يا پھر ميں ترے شہر کي راہ بھول گيا تھا

ويران نہ ہو اس درجہ کوئي موسم گل بھي
کہتے ہيں کسي شاخ پہ اک پھول کھلا تھا

اک تو کہ گريزاں ہي رھا مجھ سے بہر طور
اک ميں کہ ترے نقش قدم چوم رہا تھا

ديکھا نہ کسي نے بھي مري سمت پلٹ کر
محسن ميں بکھرتے ہوۓ شيشوں کي صدا تھا

بچھڑتے وقت وہ آنکھیں اُداس کتنی تھیں


محبتوں میں اذّیت شناس کتنی تھیں
بچھڑتے وقت وہ آنکھیں اُداس کتنی تھیں

فلک سے جن میں اُترتے ہیں قافلے غم کے
مری طرح وہ شبیں اُس کو راس کتنی تھیں

غلاف جن کی لحد پر چڑھائے جاتے ہیں
وہ ہستیاں بھی کبھی بے لباس کتنی تھیں؟

بچھڑ کے تجھ سے کسی طور دِل بہل نہ سکا
نِشانیاں بھی تری میرے پاس کتنی تھیں!

اُتر کے دل میں بھی آنکھیں اُداس لوگوں کی
اسیرِ وہم و رہینِ ہراس کتنی تھیں!

وہ صورتیں جو نکھرتی تھیں میرے اشکوں سے
بچھڑ کے پھر نہ ملیں ناسپاس کتنی تھیں

جو اُس کو دیکھتے رہنے میں کٹ گئیں محسن
وہ ساعتیں بھی محیطِ حواس کتنی تھیں

جس آنکھ ميں کوئي چہرہ نہ کوئي عکس طلب


ہجوم شہر سے ہٹ کر، حدود شہر کے بعد
وہ مسکرا کے ملے بھي تو کون ديکھتا ہے؟

جس آنکھ ميں کوئي چہرہ نہ کوئي عکس طلب
وہ آنکھ جل کے بجھے بھي تو کون ديکھتا ہے؟

ہجوم درد ميں کيا مسکرايۓ کہ يہاں
خزاں ميں پھول کھلے بھي تو کون ديکھتا ہے؟

ملے بغير جو مجھ سے بچھڑ گيا محسن
وہ راستے ميں رکے بھي تو کون ديکھتا ھے؟

پتھر بن کر کيا تکتے ہو


اتني مدت بعد ملے ہو
کن سوچوں ميں گم پھرتے ہو

اتنے خائف کيوں رہتے ہو؟
ہر آہٹ سے ڈر جا تے ہو

تيز ہوا نے مجھ سے پوچھا
ريت پہ کيا لکھتے رہتے ہو؟

کاش کوئی ہم سے بھي پوچھے
رات گۓ تک کيوں جاگے ہو؟

ميں دريا سے بھي ڈرتا ہوں
تم دريا سے بھي گہرے ہو

کون سي بات ہے تم ميں ايسي
اتنے اچھے کيوں لگتے ہو؟

پچھے مڑ کر کيوں ديکھتا تھا
پتھر بن کر کيا تکتے ہو

جاؤ جيت کا جشن مناؤ
ميں جھوٹا ہوں، تم سچے ہو

اپنے شہر کے سب لوگوں سے
ميري خاطر کيوں الجھے ہو؟

کہنے کو رہتے ہو دل ميں
پھر بھي کتنے دور کھڑے ہو

ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے
اپني کہو اب تم کيسے ہو؟

محسن تم بدنام بہت ھو
جيسے ہو، پھر بھي اچھے ہو

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets