Tuesday 27 May 2014

محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے



محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے
وہاں جانا پڑے تم کو
ہماری یاد کو بھی ساتھ لے لینا
سنا ہے اس جزیرے پر کبھی دو ہنس رہتے تھے
وہ دونوں ایک دوجے کے دلوں پر راج کرتے تھے
وہ اک دوجے کی آنکھوں میں اتر کر خواب چُنتے تھے
وفا کے تانے بانے ریشمی باتوں سے بُنتے تھے

پھر اس کی روز ہی تجدید بھی کرتے
مگر رُت کے بدلتے ہی ہوا ایسے
وہ دونوں مختلف سمتوں میں چل نکلے
سنا ہے پھر کبھی اک ساتھ دونوں کو نہیں دیکھا

محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے
وہاں جانا پڑے تم کو
تو اس تنہا شجر کے پاس بھی جانا
کہ جس کی ساری شاخوں کے لبادے پر،
ہر اک جانب کسی کا نام لکھا ہے
سنا ہے لکھنے والا، زدگی بھر پھر کبھی کچھ لکھ نہیں پایا
وہ اپنی انگلیوں پر خون کی مہریں لگا بیٹھا
مقدر دار کر بیٹھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ خود کو ہار کر، بیٹھا

محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے
وہاں جانا پڑے تم کو
ہماری یاد کو بھی ساتھ لے لینا
ہماری یاد تپتی دھوپ میں چھاؤں کی صورت ہے
یہ ماضی کے کسی معصوم سے گاؤں کی صورت ہے

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets