Friday 31 October 2014

تیرے بدلنے پہ کیا گلہ

سردیوں کی بارش تو آگ جیسی ہوتی ہے

میرے دل سے بھی گزرتی ہے کوئی نہر فرات



کربلا کوئی فسانہ نہ فسوں ہے ، یوں ہے
یہ تو اک سلسلہ کن فیکوں ہے یوں ہے

میرے دل سے بھی گزرتی ہے کوئی نہر فرات
میری آنکھوں میں جو یہ موجہ خوں ہے ، یوں ہے

ذکر آیا تھا ابھی حضرت زینب کا کہیں
’’ تو نے پوچھا تھا نمی آنکھ میں کیوں ہے ، یوں ہے‘‘

قیمت خلد ہے اک اشک عزائے شبیر
اب کوئی لاکھ یہ کہتا رہے یوں ہے ، یوں ہے

ان کی کوشش غم شبیر فنا ہوجائے
اور یہ غم کہ فزوں اور فزوں ہے، یوں ہے

پھر ہوئے مجھ کو عطا حرف پئے مدح و سلام
ان پہ روشن مرا احوال دروں ہے ، یوں ہے

قبر میں ہوگی زیارت مجھے مولا کی عقیل
موت جو میرے لیے وجہ سکوں ہے ، یوں ہے

Thursday 30 October 2014

Main Tasavur Hoon Meri Koi Bhi Tasveer Nahin

File:Sad guy Edward.jpg

Phir Milen Ya Na Milen La'al Keh Gohar Mujh Men
Ik Dafa Chhaan Kay To Dekh Samandar Mujh Men

Main Tasavur Hoon Meri Koi Bhi Tasveer Nahin
Tu Musawir Hai To Ehsaas Ka Rang Bhar Mujh Men 

Apni Taaser Ka Daawa Hai Kiya Kab Main Ney
Main To Zulmat Hoon Chamak Uthtey Hain Akhtar Mujh Men

Ghar K Koorrey Ki Terha Phainka Gaya Hoon Bahir
Tu Woh Chuun Ley Jo Nazar Aata Hai Behtar Mujh Men 

Ay Barahman Mujhay Itna Bhi Namaskar Na Kar
Cheekh Uthey Na Kahin Zaat Ka Shoodar Mujh Men

Main To Ik Jheel Ki Tarha Say Hon Paband-o-Khamosh
Lehren Aa Jati Hain Jab Girtey Hain Kankar Mujh Men

Monday 27 October 2014

راز




چاند نکلا ہے 

چاندنی لے کر

اور تاروں کا رقص جاری ہے

پھول ہی پھول کھل گئے ہر سو

کیف سا اک جہاں پہ طاری ہے

ایک کمرے کی کھلی کھڑکی سے

تک رہی ہوں میں راستہ تیرا

اور

ہیہ سوچ رہی ہوں کب سے

تیری فرقت میں اے مرے جاناں

کیوں مرے دل کو بےقراری ہے؟

تیری تصویر کیوں ہے آنکھوں میں

تیری خوشبوسی کیوں ہے سانسوں میں

کیوں تیرے لمس کے تصور سے

بے خودی آج مجھ پہ طاری ہے؟


Friday 24 October 2014

سُرخ گُلابوں کے موسم میں


بہت بے رنگ سے دِن ہیں  
ترے گُلنار گالوں کے گُلابی پھول کِھلتے ہیں
نہ تیرے پُھول ہونٹوں سے
مِلن کی شوخ باتوں کے سُنہری رنگ میں لپٹی
کوئی تتلی ھی اُڑتی ہے
نہ دِن کے زرد کاغذ پر تری تصویر بنتی ہے
نہ شب کی کالی چادر پر تری آنکھیں چمکتی ہیں
نہ تیری مُسکراھٹ کی کِرن ملنے کو آتی ہے
رگوں کے سرد غاروں میں
اُداسی جمتی جاتی ہے
ترے گُلنار گالوں کے گُلابی پھول کِھلتے ہیں
نہ تیرے چہرے کے پل پل بدلتے رنگ ملتے ہیں
حریم ِ ذات میں جاناں 
بہت بے رنگ سے دِن 

Friday 3 October 2014

اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم



لبوں پر حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی
میں جشن ِ فتح مناتا ہوں جنگ ہار کے بھی

اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم
بہت اداس لگا خال و خد سنوار کے بھی

اب ایک پل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے
ہم اہل دل کبھی عادی تھے انتظار کے بھی

وہ لمحہ بھر کی کہانی عمر بھر میں کہی
ابھی تو خود سے تقاضے تھے اختصار کے بھی

زمین اوڑھ لی ہم نے پہنچ کے منزل پر
کہ ہم پہ قرض تھے کچھ گردِ راہگزار کے بھی

مجھے نہ سن مرے بے شکل اب دکھائی تو دے
میں تھک گیا ہوں فضا میں تجھے پکار کے بھی

مری دعا کو پلٹنا تھا پھر ادھر محسن
بہت اجاڑ تھے منظر افق سے پار کے بھی

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets