Monday 30 November 2015

Likh Diya Apney Dar Pey Kisi Nay, Is Jagah Pyaar Karna Manaa Hai


Likh Diya Apney Dar Pey Kisi Nay,
Is Jagah Pyaar Karna Manaa Hai

Pyaar Agar Ho Bhi Jaaye Kisi Ko
Iska Izhaar Karna Manaa Hai

Un Ki Mehfil Men Jab Koi Jaaye
Pehley Nazrein Woh Apni Jhukaye

Wo Sanam Jo Khuda Ban Gaye Hain
Unka Deedaar Karna Manaa Hai

Jaag Uthay To Aahen Bharein Gay
Husn Waalon Ko Ruswaa Karen Gay

So Gaye Hain Jo Furqat K Maarey
Un Ko Be'daar Karna Manaa Hai

Hum Nay Ki Arz Ay Banda Parwar
Kiyun Sitam Dhaa Rahay Ho Yeh Hum Per

Baat Sun Ker Hamari Wo Bolay
Hum Say Taqraar Karna Mana Hai

Saamnay Jo Khula Hai Jharoka
Kha Na Jaana Qateel Unka Dhoka

Ab Bhi Apnay Liye Us Gali Men
Shouq-E-Deedaar Karna Manaa Hai

Likh Diya Apney Dar Pay Kisi Nay
Is Jagah Pyar Karna Mana Hai ...

اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں



اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں 
وہ کچھ زیادہ ہی یاد آتا ہےسردیوں میں 

مجھے اجازت نہیں ہے اس کو پکارنے کی 
جو گونجتا ہے لہو میں سینے کی دھڑکنوں میں 

وہ بچپنا جو اداس راہوں میں کھو گیا 
میں ڈھو نڈتا ہوں اسے تمہاری شرارتوں میں 

اسے دلاسے تو دے رہا ہو مگر یہ سچ ہے 
کہیں کوئی خوف بڑھ رہا ہت تسلیوں میں 

تم اپنی پوروں سے کیا لکھ گے تھے جاناں 
چراغ روشن ہے اب بھی میری ہتھیلیوں میں 

جو تو نہیں ہے تو یہ مکمل نہ ہو سکیں گی 
تیری یہی اہمیت ہے میری کہا نیوں میں 

مجھے یقیں ہےوہ تھام لے گا بھرم رکھے گا 
یہ مان ہے تو دیے جلاے ہے اندھیوں میں 

ہر اک موسم میں روشنی سی بکھرتے ہے 
تمہارے غم کے چراغ میری اداسیوں میں

Sunday 29 November 2015

یہ تنہا لڑکی



!اے شبِ تار 
تجھکو معلوم بھی ہے ؟
تیری تاریکی میں دیئے جلانے والی
یہ تنہا لڑکی
اب تک اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے
کیوں الجھتی ہے ؟
کس کی راہ تکتی ہے ؟

خواب کی خواہش میں ہم تو کھو چکے بینائیاں


Saturday 28 November 2015

دیکھنے میں جتنی سلجھی تمہیں دکھتی ھوں



میرے ساحر 
تیرے خیال نے 
جس دن 
میرے احساس پر اپنے لبوں سے پیار لکھا تھا 
یوں لگا تھا 
جیسے 
میری خواہشوں کے پر وں پہ تم نے انتظار لکھا تھا 
اُس دن سے 
میں 
ھر پل تمھارے حصار میں رھتی ھوں 
اپنے ھی خیال کی بستی میں بستی ھوں 
جیسے 
بابٍ تمنا میں 
رات دن تیرا انتظار لکھتی ھوں 
اپنے گماں اور یقین کے اٍس سفر میں 
اکثر یہی سوچتی ھوں 
دیکھنے میں جتنی سلجھی تمہیں دکھتی ھوں 
خود سے اُتنی ھی الجھی رھتی ھوں 
سمٹے رھنے کے جتن میں اپنے اندر اُتنی ھی بکھری رھتی ھوں 
کیا بتاؤں 
پھر بھی 
خود کو کتنا خوش نصیب سمجھتی ھوں 
کہ 
تنہائی میں بھی تنہا نہیں رھتی ھوں

یہ تو میں بھی جانتی تھی کہ بچھڑنا تو لازم تھا



گزری ھوئی باتوں کی کتنی عجیب سی تقسیم ھے 
تم نے وہ کہا تھا 
میں نے یہ کہا تھا 
اُن ھی باتوں کی ھر بار ایک نئی سی تفہیم ھے 
سنو میری جان 
یہ تو میں بھی جانتی تھی کہ بچھڑنا تو لازم تھا 
تقدیر کی اٍس کہانی میں وقت ھی بڑا ظالم تھا 
سچ کہوں تو 
جو ھوا ٹھیک ھی ھوا پر جیسے ھوا وہ ٹھیک نہ تھا 
کہانی کے آخر میں 
ھمارا یوں خالی ھاتھ رہ جانا بس ٹھیک نہ تھا

کبھی جو لوٹ کے تم آؤ گے جاناں



کبھی جو لوٹ کے تم آؤ گے جاناں
تم کو یاد آئیں گے دن وہ سارے
وہ بیتی باتیں وہ لمحے پیارے
جب انجانی ، ان دیکھی گلیوں میں
دو دل مہک رہے تھے
ایک منزل کے بن کے متلاشی
انجان راہوں میں بھٹک رہے تھے
یونہی بے دھیانی کے کسی ایک پل میں
جب بھی جاناں تم کو خیال آئیگا
بھول کے سارے اندیشہ و غم
دل تمہارا بھی مسکرائے گا
اور یونہی چلتے چلتے کبھی
جب ان راہوں سے گزرو گے جاناں
جہاں ایک شجر قصہ سنائے گا تم کو
دو روحوں کا ملنا دکھائے گا تم کو
وصل و فراق کی روداد وہ ساری
ٹھہر ٹھہر کے سسکیوں کے درمیاں بتائیگا تم کو
تو ایسے بے کل ، بے قرار لمحوں میں کہیں
آنکھیں تو تیری بھی بھر آئیں گی
رہ رہ کر بھولا وہ منظر دہرائیں گی
پھر وہ جدائی کا منظر و محشر
رہ رہ کے تم کو بھی یاد آئے گا
مگر موسم ووقت کی لکیروں میں جاناں
رُت وہ محبت کی بدل جائے گی
چاند کی چاندنی بھی ڈھل جائے گی
وہ پھول تارے بھی ہوں گے شاید
وہ لوگ پیارے بھی ہوں گے شاید
نگاہیں تمہاری جنہیں ڈھونڈتی ہوں گی
وہ تمھارے پیارے نہ ہوں گے شاید
ہاں ہم تمہارے نہ ہوں گے شاید

آکاس بیل



کبھی بچے تھے تو سنتے تھے
آکاس بیل تناور درخت کو جکڑ لے
تو اس کی طاقت ، اس کے حسن کو
اپنی بانہیں پھیلا کر ختم کر دیتی ہے
تب پہروں بیٹھ کے سوچا کرتے تھے
آکاس بیل ہوتی ہے کیا
جب عشق ہجر کے دکھ نے
من کے تناور شجر کو گھیرا تو
تب معلوم ہوا
آکاس بیل ہوتی ہے کیا
آکاس بیل کے معنی ہیں کیا

Thursday 26 November 2015

Sham ka chehra he utra tha zara meray baad

























Koi bhi farq na manzar men parra meray baad
Sham ka chehra he utra tha zara meray baad

Ashk thay aankh men ya phir koi herani thi




















Ashk thay aankh men ya phir koi herani thi
Is terha shehar men woh phirta raha meray baad

ایک پشیمانی رہتی ہے


ھو سکے تو اپنے آنے سے پہلے خود کوبھیج دو



میرے اندر انتظار اُگ رہا ہے

خاموشی نے صداؤں کا لبادہ اوڑھ لیا ہے


ہوائیں مجھے چھو کر گزرتی ہیں تو فضا میں جیسے بربط بجنے لگتے ہیں


میرے دوپٹے کا آنچل میرے سینے پر ٹھہرتا ہی نہیں


میں بااختیار ہو کر بھی بےاختیار سی ہوں


شاید یہ موسم ہی بے اختیاریوں کا موسم ھے


سحر زدہ موسم کہ جس کے ایک ایک لمحے میں جیسے جادو لکھا ہوا ہے


میرے ساحر


یہ جادو مجھے بھی تو سکھا دو


تا کہ میں بھی اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں جب جی چاہے تمہاری صورت دیکھ 


سکوں

نا جانے یہ اسی فضا کے سحر کا اثر ہے کہ 


تیری آشنا سانسیں مجھ سے باتیں کرتی رھتی ھیں


یا پھر یہ خود کلامی کا موسم ھے 


میں خود سےصرف تمہاری باتیں کرتی ہوں


یا پھر یہ لپٹ جانے کا موسم ہے کہ میں اپنے بدن کے سائے سے


لپٹی رہتی ہوں


ہو سکتا ہے کہ یہ سمٹ جانے کا موسم ہو کہ میں تمہارے خیال میں


سمٹی رہتی ہوں


میرے ساحر


سنو


ھو سکے تو اپنے آنے سے پہلے خود کوبھیج دو 


شاید سارے موسم بدل جائیں!


تمہارے بغیر

میں تو سوچ رھی تھی کہ مجھے سب کچھ بھول چکا ھے



میں تو سوچ رھی تھی کہ مجھے سب کچھ بھول چکا ھے 
وہ جو ادھورے خوابوں کی کہانی تھی 
وہ جو میں نے تمہیں سنانی تھی 
جب 
وقت نے اپنی سانسوں سے روح کے بدن پر لکھا تھا 
وقت نارسا کا مہر 
اُن شناسا باتوں کا زہر 
جو کبھی تم نے مجھ میں انڈیلا تھا 
بڑی چاہ سے جسے میں نے سنبھالا تھا 
مدت بعد 
یہ آج مجھے کس مقام پہ لے آئے ھو 
ایسے کہ 
نہ آئے ھی ھو اور نہ گئے ھو تم 
نہ اپنے ھی ھو اور نہ پرائے ھو تم 
میری جان 
ادھورے خوابوں کی کہانیاں ادھوری ھی رھنے دو 
اور اب 
اٍن ادھوری کہانیوں کو بلاعنوان ھی رھنے دو

Wednesday 25 November 2015

محبت کیوں ہو جاتی ہے



مجھے کوئی نہیں بتاتا
کہ دل جُڑنے کے بعد ٹوٹ کیوں جاتے ہیں
گھنے درختوں سے سنائی دینے والی کوئل کی کُوک،
ہُوک کیسے بن جاتی ہے
جب تنہائی منڈیروں سے آنگن میں اترنے لگتی ہے
تو اپنی ہی باہیں اپنے گلے میں ڈالنے کو جی کیوں چاہتا ہے
مجھے کوئی نہیں بتاتا
پرانے گھروں کے برآمدوں میں اداسی کیوں اونگھتی رہتی ہے
آنگنوں میں بیٹھی رہ جانے والی
لڑکیوں کے سروں میں دھوپ کیسے اتر آتی ہے
اور ان کے نیم تاریک، کمروں میں روشن
آنسوؤں کے دیپ کیوں نہیں بجھتے
مجھے کوئی نہیں بتاتا
کہ بانسری کے چھید چھید سینے سے لہو کیوں ٹپکتا ہے
ایک بار بچھڑ جانے والے دل سے کیوں نہیں جاتے
اور قربتوں کی دھوپ کن گھاٹیوں پر جا اترتی ہے
مجھے کوئی نہیں بتاتا
چڑیاں کیوں چہچہاتی ہیں
ہوا کے دوش پر پھیلتی خوشبو کس کے سندیسے لاتی ہے
مٹھی میں بند کر لینے کے باوجود
جگنو کی روشنی کیوں نہیں چھپتی
محبت کیوں ہو جاتی ہے

کب دل اس کی بات مانے گا ؟



!وہ کہتا
کیا رکھا ہے یادوں کے جھروکوں میں
تلخیاں ہی تلخیاں ہیں ماضی کے دریچوں میں
چلو چھوڑیں نادانیاں عقل سے کام لیں
آؤ ! زمانے کا ساتھ دیں ، خوشی کا ہاتھ تھام لیں
آؤ !
دکھ کے اندھیروں سے پہلے
اپنی سحر سویرا کر لیں
ہے جہاں جہاں روشنی
آنکھیں خیرہ کر لیں
یہ درد دل اور وفاؤں کی باتیں
بہت پرانی باتیں ہیں
کیا رکھا ہے ان باتوں میں
بس یہ درد کی سوغاتیں ہیں
آؤ ہنستے ہنستے بچھڑ جائیں
مری جاں میرا کہنا مان لو
اب زہرِ جدائی پینا ہے
ذہن و دل سے جان لو
وفا کی ڈگر پہ چلتے چلتے تم بھی تھک ہی جاؤ گے
صدیوں پرانی ریت پریت کب تک تم نبھاؤ گی
جب میں ہی نہیں ہوں ساتھ تیرے
پھر کس کو تم بلاؤ گی
کیسی وفا ہے جس کو تم آزماؤ گی
تھک ہار کے مری جاں
تم بھی زمانے کی ہو جاؤ گی
دیتے دیتے یونہی صدائیں
آخرلَوٹ جاؤ گی
اک عمر گزری ، صدیاں بیتیں
مگر آج بھی یہی سوچتی ہوں میں
آخرکب وہ دن آئے گا
اُس کی طرح ، میرا دل بھی
عقل کو اپنائے گا
اس کی باتوں کو مان کر
اُسی کو بھول جائے گا
ہاں اسی کو بھول جائے گا

محبت کا چاند گرہن



ماں کہتی تھی
میری ننھی سی گڑیا
آج باہر نہ نکل
کیا تجھ کو معلوم نہیں
آج سورج گرہن ہے
روایت کہتی ہے
سورج گرہن ہو تو
دیکھنے سے آنکھیں بینائی کھو دیتی ہیں
چہرے مرجھاجاتے ہیں
ان پہ زردی چھا جاتی ہے
مہکتے تن ومن کُملاجاتے ہیں
پھول اوڑھ لیتے ہیں زرد رتوں کا پیرہن
بہاریں خزاں میں ڈھل جاتی ہیں
یہاں تک کہ سمندر کے بھنور
اور زمین کے مدو جزر بھی بدل جاتے ہیں
مری گڑیا
تو باہر نہ نکل
کہ تیری غزالی آنکھوں اور روپہلے چہرے کو
کہیں چاٹ نہ لے یہ سورج گرہن
مگر آج ماں کو بتائے کون
اس کی گڑیا کو
جسے زرد کر نہ سکا سورج گرہن
اسے ڈَس گیا محبت کا چاند گرہن

Tuesday 24 November 2015

اک شخص میری عمر کے عنوان لے گیا



اک شخص میری عمر کے عنوان لے گیا
میرے یقین کا ہر اک سامان لے گیا

کچھ خواب تھے، کہ پھول تھے، تعبیر تھی یہاں
جاتے ہوئے وہ اپنے سب پیمان لے گیا

یادوں کے پھول جس میں سجاتی رہی تھی میں
ہاتھوں سے میرے کون یہ گلدان لے گیا

تنکوں کا آشیاں جو بنایا تھا شوق سے
وہ بھی اڑا کے ساتھ میں طوفان لے گیا

وعدہ بھی ساتھ لے گیا جاتے ہوئے وہ آج
ملنے کا آخری تھا جو امکان لے گیا

Monday 23 November 2015

ملاقات آخری




مجھ کو رہے گی یاد ملاقات آخری
ہونٹوں پہ رہ گئی تھی کوئی بات آخری 
آنکھوں کے دشت میں تھے نگینے سجے ہوئے 
چاہت کی جس طرح سے ہو سوغات آخری 
ٹھہرا ہوا سا د ن تھا اور 
گہری اداس شام 
دل کے نگر میں چھائی تھی 
جذبوں کی وہ نمی 
بھولوں گی کس طرح سے میں
لمحات آخری 
وہ ملاقات آخری 
رک رک کے مڑ کے دیکھتا تھا بے نوا کوئی 
اور دوڑتی تھی سائے کے پیچھے میں بے خطر
اک شام سے تھا رات کا تنہا کٹھن سفر
مرجھا گیا چمن میں ہر اک پھول ہر شجر
آہوں کا سسکیوں کا سمندر تھا موجزن
اس کا خیال روح کے اندر تھا موجزن
ہو گی نہ اب کبھی بھی وہ برسات آخری
مجھ کو رہے گی یاد ملاقات آخری
کیسا وہ آشنا تھا اور کیسا تھا اجنبی
اپنے لئے یہ دکھ بھی بہت ہی عجیب تھا
گو فاصلے بہت تھے مگر وہ قریب تھا
شکوہ مرے لبوں پہ تو آیا نہ تھا کبھی 
وہ کہہ رہا تھا ہجر ہی اپنا نصیب ہے 
بھولوں گی کس طرح سے میں کلمات آخری 
وہ ملاقات آخری 
پھر اس کے بعد روح میں پھیلا وہ انتشار 
جیسے پکارتے ہوں وہ جذبے سے بے قرار 
دشتِ طلب میں جیسے کوئی روئے زار زار 
پھولوں کو چھوڑ کر لئے کانٹوں کے ہم نے ہار 
دن رات کا سفر بھی کٹے ایک آس پر
ممکن ہے نام لے وہ مرا پھر سے بار بار
دل بے قرار ہو کوئی دھڑکن بھی لے پکار 
لیکن میں جانتی ہو ں ہر اک موج رنگ میں 

اس دن چھلک رہے تھے وہ جذبات آخری 
اب توبس اک امید ہے اک آس ہے مجھے 
ممکن ہے اس طرح سے بھی ا ک روز ہو کبھی 
خوابوں کے اس نگر میں یونہی لوٹ آئے و ہ 
دل پر دیں دستکیں اگر جذبے وہی کبھی 
چھا جائے پھر سے شام کبھی سرد سی وہی 
دل کی خلش تو اب نہ مٹے گی تمام عمر
آنے پہ اس کے ہوں گی رسومات آخری
میرے کٹیں گے ایسے اب لمحات آخری
بھولوں گی اس طرح سے ملاقات آخری

Friday 20 November 2015

تخت نشین تھی عشق کی پھر بھی، دل کی بازی ہاری سائیں



تخت نشین تھی عشق کی پھر بھی، دل کی بازی ہاری سائیں
تیرا مذہب دنیا داری، میں الفت کی ماری سائیں

مثلِ خوشبو مہکی تھی مَیں، اس کے وصل کی چھاؤں میں کل
سر پر تپتی دھوپ کھڑی اب ، ساتھ میں ہجر کی باری سائیں

ہر اک موڑ پہ دل نے تجھ کو کیسے اپنا مان لیا ہے
مجھ کو مار گئی ہے تیری، جھوٹی یہ دلداری سائیں

گھِر کر آیا درد کا ساون ، جل تھل جل تھل من کا آنگن
دکھ کے آنسو کب رک پائیں، ان کی برکھا جاری سائیں

لازم ہے اب دل بھی اجڑے، ساجن سے ساجن بھی بچھڑے
ہر جانب اک شور کا میلہ ، اور دولت کے پجاری سائیں

تیرے ہر اک زخم کو اپنی روح کا اس نے زیور جانا
کیسے سج کر پھرتی ہے، اب تیری راج دلاری سائیں

درد وچھوڑا تُو کیا جانے، من مندر کو تُو کب مانے
دل کی دھڑکن کب پہچانے، تُو جذبوں سے عاری سائیں

کل سوچا تھا شعر میں تجھ سے سارے شکوے کر ڈالوں گی
آج غز ل کہنے بیٹھی تو کیوں اتنی دشواری سائیں

اپنے من کو آگ لگائی ، اور پھر اس کی راکھ اُڑائی
یوں ہی جلتے بجھتے شاہیں ساری عمر گزاری سائیں

کسی بچھڑے ہوئے کا کوئی پتہ درکار ہے تجھ کو؟

taqdeer

کبھی تقدیر گر میری
مجھے رستے میں مل جائے
کبھی بھولے سے ہی گَر وہ
مری بستی میں آجائے
مرے گھر کا پتہ پوچھے
کبھی مجھ سے کہے آکر
کہ میں تقدیر ہوں تیری
بتا کیا چاہئے تجھ کو؟
خوشی درکار ہے تجھ کو؟
ہنسی درکار ہے تجھ کو؟
وفا درکار ہے تجھ کو ؟
کسی بچھڑے ہوئے کا کوئی پتہ درکار ہے تجھ کو؟
بتا تقدیر کی ماری کہ کیا درکار ہے تجھ کو ؟
کبھی تقدیر گر پوچھے تو میں کچھ بھی نہ مانگوں گی
میں اے جانِ جہاں تقدیر سے تیرا نہ پوچھوں گی
نہ تیرا پیار اور چاہت
نہ جذبوں کی کوئی حدت
نہ ہونٹوں کی کوئی لرزش
نہ ہاتھوں کی کوئی جنبش
نہ خوشبو دار سا موسم
نہ زخموں کے لئے مرہم
نہ کوئی امید مانگوں گی
نہ اس سے عید مانگوں گی
نہ میں تیری محبت کی کوئی تجدید مانگوں گی
نہ اُس بھولے ہوئے وعدے کی اب تائید مانگوں گی
بس اے جانِ جہاں تقدیر سے میں اتنا پوچھوں گی
رفاقت اور محبت کا
ریاضت اور عبادت کا
یہی انجام ہوتا ہے ؟
مسلسل ایک سجدے کا یہی انعام ہوتا ہے ؟
کسی کے نام پر کوئی اس طرح بے نام ہوتا ہے؟
مثالِ شام ہوتا ہے؟

Thursday 19 November 2015

دل دیس تمہارا مسکن تھا

dil

دل دیس تمہارا مسکن تھا
اس میں تو تمہارا جیون تھا
اس میں تو تمہاری دھڑکن تھی
دل ہی تو تمہارا گلشن تھا
اس میں تو تمہاری خوشیاں تھیں
اک دل کا دل سے بندھن تھا
اے جان بتاؤ پھر تم نے
دل دیس کو کیوں پامال کیا ؟
کیوں اس کو یوں بے حال کیا ؟
اس دل کو اجاڑا کیوں تم نے؟
اس طرح بگاڑا کیوں تم نے؟
دل دیس میں تم ہی رہتے تھے
دل دیس میں تم ہی بستے تھے
اس کے دیوار و در کو بس
تم تنہا دیکھا کرتے تھے
اس کی اونچی سی مسند پر
بس تم ہی بیٹھا کرتے تھے
دل مندر میں تو تمہاری ہی
ہرہر پل پوجا ہوتی تھی
دل دیس تمہارا مسکن تھا
اس دیس کی بنجر مٹی میں
تم نے ہی پھول اگانے تھے
اس کے ویران سے آنگن میں
خوشیوں کے گیت بھی گانے تھے
اس کی اندھی راتوں میں تمہیں
امید کے دیپ جلانے تھے
کچھ رنگ فضا میں پھیلا کر
ان سے کچھ رنگ بنانے تھے
لیکن میں حیراں ہوں جاناں
دل دیس تمہارا مسکن تھا
دل دیس تمہارا جیون تھا
اس دیس کو تم کیوں چھوڑ گئے؟
دل دیس کی راہوں سے آخر
رُخ اپنا کیونکر موڑ گئے؟
سب دیپ بجھا کر چلے گئے
سب خواب جلا کر چلے گئے
دل دیس جو روشن روشن تھا
یہ آج تلک بس ویراں ہے
اک آنکھ یہاں موجود ہے پر
یہ آنکھ ابھی تک حیراں ہے
دل دیس کی اونچی سی مسند
اے جان ابھی تک خالی ہے
اور مندر میں موجود وہی
اک پوجا کرنے والی ہے
اس کا دامن بھی خالی ہے

میری لاپرواہ طبیعت نےتمہیں بھی کھو دیا



کچھ کھو دینے کی عادت تو
پہلی بھی تھی مجھ میں
میری اس عادت پہ تم بہت ہنستے تھے
ہر روز کچھ نہ کچھ کھو دینا
خلش بھی بن جاتی ہے جاناں
کچھ کھو دینے کا احساس جب مجھے رلاتا
تو تم میرے آنسو پونچھنا نہ بھولتے تھے
لیکن آج میرے یہ آنسو
کون اپنی ہتھیلیوں پہ جمع کرے
کہ میری لاپرواہ طبیعت نے
تمہیں بھی کھو دیا ہے

Wednesday 18 November 2015

Saturday 14 November 2015

اگر ایک پل کو کہیں مل سکو ۔۔۔ تو



پیار ہے؟“ میں نے پوچھا تھا''

نہ“ تم نے نفی میں سر کو ہلا کر''

کسی ڈوبتے آدمی کی طرح سانس لیتے ہوئے 

بے بسی سے کہا تھا ”نہیں ۔۔۔ عشق ہے ۔۔۔ عشق

کیا عشق کو بھی فنا ہے؟

مجھے بس یہی پوچھنا ہے

اگر ایک پل کو کہیں مل سکو ۔۔۔ تو

شکست


بارہا مجھ سے کہا دل نے کہ اے شعبدہ گر

تو کہ الفاظ سے اصنام گری کرتا ہے

کبھی اس حسنِ دل آرا کی بھی تصویر بنا

جو تری سوچ کے خاکوں میں لہو بھرتا ہے

بارہا دل نے یہ آواز سنی اور چاہا

مان لوں مجھ سے جو وجدان مرا کہتا ہے

لیکن اِس عجز سے ہارا مرے فن کا جادو

چاند کو چاند سے بڑھ کر کوئی کیا کہتا ہے

رختِ سفر میں رکھوں گی بس تیرے جستجو



یہ پُھول یہ پرند یہ گھر چھوڑ جاؤں گی
لیکن میں سب میں اپنا اثر چھوڑ جاؤں گی

رختِ سفر میں رکھوں گی بس تیرے جستجو
باقی ہر ایک چیز اِدھر چھوڑ جاؤں گی

لگتا ہے میں بھی سایۂ دیوار کی طرح
اک روز دن ڈھلے یہ نگر چھوڑ جاؤں گی

بچّوں کی طرح پالا ہے تیرے خیال کو
میں سوچتی ہوں اس کو کدھر چھوڑ جاؤں گی

میں وہ نہیں کہ موت سے مل کر نہ آسکوں
میں اپنے لوٹنے کی خبر چھوڑ جاؤں گی

ترسیں گے پھر یہ لوگ میرے شور کو قمر
چڑیوں کی طرح میں بھی شجر چھوڑ جاؤں گی

تو مثلِ رگِ جاں ہے تو کیوں مجھ سے خفا ہے









حیراں ہوں کہ یہ کونسا دستورِ وفا ہے
تو مثلِ رگِ جاں ہے تو کیوں مجھ سے خفا ہے

تو اہلِ نظر ہے تو نہیں تجھ کو خبر، کیوں؟
پہلو میں تیرے کوئی زمانے سے کھڑا ہے

لکھا ہے میرا نام، پانی پہ ہوا پہ
دونوں کی فطرت میں، سکوں ہے نہ وفا ہے

شکوہ نہیں مجھ کو، کہ ہوں محرومِ تمنّا
غم ہے تو فقط اتنا کہ تو دیکھ رہا ہے

ہم رکھتے ہیں دعویٰ کہ ہے قابو ہمیں دل پر
تو سامنے آ جائے تو یہ بات جدا ہے

خود کو سبز ہی رکھا آنسوؤں کی بارش میں



خواب ساتھ رہنے کے نت نئے دکھاتا ہے
یہ جو اصل موسم ہے یہ گزرتا جاتا ہے

خود کو سبز ہی رکھا آنسوؤں کی بارش میں
ورنہ ہجر کا موسم کس کو راس آتا ہے

تو ہواؤں کا موسم تجھ کو کیا خبر جاناں
گردِ بد گمانی سےدل بھی ٹوٹ جاتا ہے

ایک تم ہی تھے ورنہ آدمی محبت میں
لاکھ آئیں دیواریں راستے بناتا ہے

ہم تو خیر ناداں تھے،منتظر رہے ورنہ
کون اپنی بینائی اس طرح گنواتا ہے

کتنےخواب آنکھوں میں زخم بننےلگتےہیں
جب ہوا کے ہونٹوں پر تیرا نام آتا ہے

سینکڑوں دکانیں ہیں وصل کے چراغوں کی
کون ہجر میں اپنا اب لہو جلاتا ہے

ترےجنگل کی صندل ہوگئی ہوں



ترےجنگل کی صندل ہوگئی ہوں 
سلگنے سے مکمل ہوگئی ہوں

ذرا پیاسے لبوں کی اے اداسی
مجھے تو دیکھ چھاگل ہوگئی ہوں

بدن نے اوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں

دھنسی جاتی ہے مجھ میں زندگانی
میں اک چشمہ تھی دلدل ہوگئی ہوں

کسی کے عکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینے سے اوجھل ہوگئی ہوں

رکھا ہے چاند اونچائی پہ اتنا
تمنائوں سے پاگل ہوگئی ہوں

کرشمہ اک تعلق کا ہے نیناں
کہ میں صحرا سے جل تھل ہوگئی ہوں

یوں اکیلے میں اسے عہدِوفا یاد آئے



یوں اکیلے میں اسے عہدِوفا یاد آئے
جیسے بندے کو مصیبت میں خدا یاد آئے

جیسے بھٹکے ہوئے پنچھی کو نشیمن اپنا
جیسے اپنوں کے بچھڑنے پہ دعا یادآئے

جیسے ڈھلتی ہوئی شاموں کو سویرا کوئی
جیسے پنجرے میں پرندے کو فضا یاد آئے

جیسے بوڑھے کو خیالات میں بچپن اپنا
جیسے بچے کو شرارت پہ سزا یاد آئے

جیسے اُجڑی ہوئی بستی کو زمانہ اپنا
جیسے طوفان کے ٹھہرنے پہ دیا یاد آئے

متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں



متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں
فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں

جہان رنگ و بو الجھا ہوا ہے ان کے ڈوروں میں 
لگی ہیں کاکل تقدیر سلجھانے تری آنکھیں

اشاروں سے دلوں کو چھیڑ کر اقرار کرتی ہیں
اٹھاتی ہیں بہارِ نو کے نذرانے تری آنکھیں

وہ دیوانے زمام لالہ و گل تھام لیتے ہیں
جنہیں منسوب کر دیتی ہیں ویرانے تری آنکھیں

شگوفوں کو شراروں کا مچلتا روپ دیتی ہیں
حقیقت کو بنا دیتی ہیں افسانے تری آنکھیں

ہونٹ ہیروں سے نہ چہرہ ہے ستارے کی مثال



ہونٹ ہیروں سے نہ چہرہ ہے ستارے کی مثال
پھر بھی لاوے تو کوئی دوست ہمارے کی مثال

مجھ سے کیا ڈوبنے والوں کا پتہ پوچھتے ہو؟
میں سمندر کا حوالہ، نہ کنارے کی مثال

زندگی اوڑھ کے بیٹھی تھی رِدائے غم
تیرا غم ٹانک دیا ہم نے ستارے کی مثال

عاشقی کو بھی ہوّس پیشہ تجارت جانیں
وصل ہے منافع تو ہجراں ہے خسارے کی مثال

ہم کبھی ٹوٹ کہ روئے نہ کبھی کُھل کے ہنسے
رات شبنم کی طرح صبح ستارے کی مثال

ناسپاہی کی بھی حد ہے جو یہ کہتے ہو فراز
زندگی ہم نے گزاری ہے گزارے کی مثال

Thursday 12 November 2015

Woh ja raha tha usi raat ki flight say






































Woh ja raha tha usi raat ki flight say
Mein ban'd kamray men brthi thi roshni kay baghair

میں تیرے دل میں کسک بن کے رہوں


کون روتا ہے دردِ فرقت میں؟


Kyun bheeg rahi hai raat meri















Kyun bheeg rahi hai raat meri
Kaya koi kahin pay ro raha hai

تم میرے دل کی خلش ہو۔۔۔۔۔۔ لیکن


چند گِلے بھلا دیے چند سے درگزر کیا


عمر کے بعد اس طرح دید بھی ہو گی بات بھی


Hum ko us aadmi say muhabbat ajeeb thi

























Milnay ki aarzu,na bicharnay ka malaal
Hum ko us aadmi say muhabbat ajeeb thi

وہ شام ذرا سی گہری تھی


Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets