زوالِ شب ہے ستاروں کو گرد ہونا ہے
پسِ نگاہ ابھی ایک غم کو رونا ہے
اب اس کے بعد یہی کارِ عمر ہے کہ ہمیں
پلک پلک میں تیری یاد کو پرونا ہے
یہی کہ سلسلہ نارسائی ختم نہ ہو
سو جس کو پانہ سکے ہم، اسی کو کھونا ہے
جو لفظ کھل نہ سکیں آئینے پہ، مٹی ہیں
جو بات دل پہ اثر کرسکے، وہ سونا ہے
تو اس کو توڑنا چاہے تو توڑ سکتا ہے
کہ زندگی ترے ہاتھوں میں اک کھلونا ہے
بس ایک چشم سیہ بخت ہے اور اک تیرا خواب
یہ خواب، خواب نہیں اوڑھنا بچھونا ہے
سفر ہے دشت کا اور سر پہ رختِ تنہائی
یہ بار بھی اسی عمر رواں کو ڈھونا ہے
No comments:
Post a Comment