Pages

Tuesday, 25 October 2011

خدا خافظ



وہ عکس تھی مست بہاروں کا
وہ رنگ تھی شوخ نظاروں کا
وہ نور تھی چاند ستاروں کا
وہ میری آنکھ کا تارا تھی
میں جان سے اس کو پیارا تھا
وہ لے تھی میرے گیتوں کی
وہ شعلہ تھی یا شبنم تھی
کچھ پاگل سی کچھ گم صم سی
مُسکان تھی میرے ہونٹوں کی
جب راہ میں مجھ سے مل جاتی
وہ شرم سے آنکھ جھکا دیتی
پھر ہاتھ ہوا میں*لہرا کر
وہ چاند کو بھی گہنا دیتی
اک روز ملی اس حال میں وہ
نہ آنکھ میں اس کی شوخی تھی
نہ باتوں میں گہرائی تھی
کبھی ہنستی تھی کبھی روتی تھی
غمگین مجھے وہ لگتی تھی
معمول سے ہٹ کہ اس کی ہنسی
کچھ بول نہ پائی تھی لیکن
اک کاغذ ہاتھ میں تھامے تھی
اُس کاغذ پر یہ لکھا تھا
اے جانِ خلوص خدا حافظ
اے جانِ تمنا رب راکھا

No comments:

Post a Comment