کرب کے شہر سے نکلے تو یہ منظر دیکھا
ہم کو لوگوں نے بلایا ہمیں چھو کر دیکھا
جب بھی چاہا ہے کہ ملبوسِ وفا کو چُھو لیں
مثلِ خوشبو کوئی اڑتا ہوا پیکر دیکھا
وہ برسات میں بھیگا تو نگاہیں اٹھیں
یوں لگا ہے کوئی ترشا ہوا پتھر دیکھا
زندگی کتنی پریشاں ہے یہ سوچا بھی نہ تھا
اس کے اطراف میں شعلوں کا سمندر دیکھا
آ گئی غم کی ہوا پھر تیرے گیسُو چھو کر
ہم نے ویرانئہِ دل پھر سے معطّر دیکھا
وہ جو اڑتی ہے صدا دشتِ وفا میں افضل
اسی مٹّی میں نہاں درد گوہر دیکھا
No comments:
Post a Comment