Pages

Tuesday, 1 November 2011

ہجر کی شب میں بہت بولتے ہیں سناٹے



محبتوں کا بھرم کھولتے ہیں سناٹے
ہجر کی شب میں بہت بولتے ہیں سناٹے

کسی کسی کو یہ اتنا نواز دیتے ہیں
کسی کسی کو بہت رولتے ہیں سناٹے

رکھے ہیں چاند ستاروں نے ہاتھ کانوں پر
سنا تھا میں نے بہت بولتے ہیں سناٹے

تمہارے بس میں اگر ہو تو جان لو اِن کو
کسی پہ خود کو کہاں کھولتے ہیں سناٹے

سنا ہے میں نے یہ تنہائیوں کے دشمن ہیں
سنا ہے اُن میں زہر گھولتے ہیں سناٹے

یہ میری شاعری ان کی ہی اک ادا سمجھو
کہ میری سوچ کے در کھولتے ہیں سناٹے


No comments:

Post a Comment