Pages

Thursday, 24 November 2011

آسماں کے رنگوں میں رنگ ہے شہابی سا



آسماں کے رنگوں میں رنگ ہے شہابی سا
دھیان میں ہے پھر چہرہ ایک ماہتابی سا

منظروں نے کرنوں کا پیرہن جو پہنا ہے
میں نے اس کا رکھا ہے نام آفتابی سا

تم عجیب قاتل ہو روح قتل کرتے ہو
داغتے ہو پھر ماتھا چاند کی رکابی سا

کون کہہ گیا ہے موت ٹوٹنے سے آتی ہے
گل نے تو بکھر کے باغ کر دیا گلابی سا

پھر ہوا چلی شاید بھولے بسرے خوابوں کی
دل میں اٹھ رہا ہے کچھ شوق اضطرابی سا

تلخیوں نے پھر شاید اک سوال دوہرایا
گھل رہا ہے ہونٹوں میں ذائقہ جوابی سا

حرف پیار کے سارے آ گئے تھے آنکھوں میں
جب لیا تھا ہاتھوں میں چہرہ وہ کتابی سا

بوند بوند ہوتی ہے رنگ و نور کی بارش
جب بھی موسم آیا ہے نیناں میں شرابی سا




No comments:

Post a Comment