Pages

Friday, 2 December 2011

اب بھی اس کے خط آتے ہیں




اب بھی اس کے خط آتے ہیں
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے
موسم، خوشبو، گھر والوں کی باتیں کر کے
اپنے دل کا حال سبھاؤ سے لکھتی ہے
ابھی بھی اس کے سب لفظوں سے
کچے جذبے پھوٹ آتے ہیں
اب بھی اس کے خط میں موسم
گیت سنانے لگ جاتے ہیں
اب بھی دھوپ نکل آتی ہے
بادل چھانے لگ جاتے ہیں
اب بھی اس کے جسم کی خوشبو
ہاتھوں سے ہو کر لفظوں تک
اور پھر مجھ تک آ جاتی ہے
اب بھی اس کے خط میں اکثر
چاند ابھرنے لگ جاتا ہے
شام اترے تو ان لفظوں میں
سورج ڈوبنے لگ جاتا ہے
اب بھی خط کے اک کونے میں
وہ اک دیپ جلا دیتی ہے
اب بھی میرے نام پہ اپنے
اُجلے ہونٹ بنا دیتی ہے
اب بھی اس کے خط آتے ہیں
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے
اب بھی اس کے خط آتے ہیں 




No comments:

Post a Comment