Pages

Thursday, 15 December 2011

کوئی بات بھی اسکو یاد نہیں




کوئی عہد بھی اسکو یاد نہیں
کوئی بات بھی اسکو یاد نہیں

اک شخس نے اسکو چاہا تھا
وہ ذات بھی اسکو یاد نہیں

جب شب کی بجلی چمکی تھی
اور بادل ٹوٹ کہ برسا تھا

ہم دونوں جس میں بھیگے تھے
وہ برسات بھی اسکو یاد نہیں

وہ ساحل، دریا، پھول، ہوا
وہ وعدہ ساتھ نبھانے کا

اور شب بھر چاند کو دیکھا تھا
وہ رات بھی اسکو یاد نہیں

وہ کہتی تھی میں سنتا تھا
میں کہتا تھا وہ سنتی تھی


No comments:

Post a Comment