Pages

Friday, 16 December 2011

آنکھوں سے کون میری، میرے خواب لے گیا






آنکھوں سے کون میری، میرے خواب لے گیا
چشمِ صدف سے گوہرِ نایاب لے گیا


اس شہرِ خوش جمال کو کس کی لگی ہے آہ
کس دل زدہ کا گریہءِ خوں ناب لے گیا


کچھ نا خدا کے فیض سے ساحل بھی دور تھا
کچھ قسمتوں کے پھیر میں گرداب لے گیا


واں شہر ڈوبتے ہیں ، ادھر بحث کہ انہیں
خم لے گیا ہے یا خمِ محراب لے گیا


کچھ کھوئی کھوئی آنکھیں بھی موجوں کے ساتھ تھیں
شاید انہیں بہا کےکوئی خواب لے گیا


طوفانِ ابر باد میں سب گیت کھو گئے
جھونکا ہوا کا ہاتھ سے مضراب لے گیا


غیروں کی دشمنی نے نہ مارا، مگر ہمیں
اپنوں کے التفات کا زہراب لے گیا


اےآنکھ! اب تو خواب کی دنیا سے لوٹ آ
“مژگاں تو کھول ! شہر کو سیلاب لے گیا”




No comments:

Post a Comment