Pages

Monday, 19 December 2011

تم جو پل بھر کو ٹھر جائو





تم جو پل بھر کو ٹھر جائو تو یہ لمحے
آنے والے کئی لمحوں کی امانت ہو جائیں
تم جو ٹھر جائو تو یہ رات،یہ مہتاب
یہ سبزہ،یہ گلاب اور ہم دونوں کے خواب
سب کے سب ایسے بہم ہوں کے حقیقت ہو جائیں
تم ٹھر جائو کہ عنوان کی تفسیر ہو تم
تم سے تلخئ اوقات کا موسم بدلے
رات تو کیا بدلے گی،حالات تو کیا بدلیں گے
تم جو ٹھر جائو تو میری ذات کا موسم بدلے
مہرباں ہو کہ نہ ٹھرو،تو پھر یوں ٹھرو
جیسے پل بھر کوئی خوابِ تمنا ٹھرے
جیسے درویش مدح نوش کے پیالے میں کبھی
ایک دو پل کے لیئے تلخئ دنیا ٹھرے
ٹھر جائو کے مدارت کے مئے خانے سے
چلتے چلتے کوئی ایک آدھ سبو ہو جائے
اس سے پہلے کہ کوئی لمحہءِ آئندہ کا تیر
اس طرح آئے کہ پیوستِ گلو ہو جائے

No comments:

Post a Comment