Pages

Friday, 16 December 2011

حدودِ جاں سے گزر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا





حدودِ جاں سے گزر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا

محبتوں کی نظر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا

وفا کا پودا شجر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا
نصیب اس کا ثمر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا

ابھی تو پھرتے ہو دوستوں میں عزیز کوئی جداُ نہیں ہے
کوئی ادھرِ ِ سے اُدھر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا

یہ خوش نصیبی ہے شہر بھر میں تمھارا دشمنُ نہیں ہے کوئی
کبھی کسی کا جو ڈر ہوا تو محبتوں کا پتہ چلے گا

یہ فاصلہ سا ابھی تلک جو ہمارے دونوں کے درمیاں ہے
یہ فاصلہ مختصر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا

ابھی محبت نہیں ہوئی تو کچھ اسلئے مسکراُ رہے ہو
کسی کی بانہوں میں گھر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا

محبتوں میں تو پتھروں کو بھی موم ہوتے سناُ ہے لیکن
تمھارے دل پہ اثر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا

وہ جس کی خاطر زمانے بھر کو بنا رہے ہو تم اپنا دشمنُ
وہی نہ اپنا اگر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا

بدل بدل کے ابھی تو چہرے معیار اپنا بنا رہے ہو
کوئی نہ حد نظر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا

یہ کیا بچھڑنا کہ شام ہوتے ہی اپنے پیاروں میں لوٹ آنا
کبھی جو لمبا سفر ہوا تو محبتوں کا پتہ چلے گا

No comments:

Post a Comment